ہندوستان کوزِیر نگیں کر لینے کے بعد5 برِ اعظموں پر مشتمل برطانیہ کی سلطنت کا دائرہ تقریباً 33 ملین مربع کلو میٹر تک پھیل چکا تھا۔1757ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے برِ صغیر پاک و ہند پر اقتدار کا غلبہ پاتے ہی اپنے تسلط کودوام وسعت دینے اور خطہ پر مطلق العنانیت کا راج کرنے ،اپنی طاقت کے پنجے گاڑنے کیلئے رعایا کے حقوق کا استحصال ،انسانیت سوز پالیسیوں کا تسلسل شروع کر دیا تھا۔ فرنگی برِ صغیر کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے درپے تھا۔اس حریصانہ اور ظالمانہ پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے وہ گاہے بگاہے عوام پر غیر قانونی و ذلت آمیز عوام دشمن قانون و ٹیکسز کو عائد کرتا رہتا۔ ہندوستانی عوام کو قحط سے بھی دوچار ہونا پڑا ۔امریکی تاریخ دان میتھیو وائٹ برطانوی عہد میںہندستان میں آنے والے قحط کے ہاتھوں مرنے والے انسانوں کی تعداد 2 کروڑ 66 لاکھ بتاتا ہے۔جو روئے زمین پر وقوع پذیر ہونے والی سفاکیت میں سے ایک ہے۔انگریز دورِ حکومت کے خون آشام اقدامات کے تسلسل میں ایک بدنامِ زمانہ رولٹ ایکٹ مجریہ 21 مارچ1919ء ہے جو برطانوی ہندوستان کی قانونی مشاورتی کونسل نے کمیٹی کے صدر سڈنی رولٹ کی سربراہی میں دہلی میں منظور کیا تھا۔رولٹ ایکٹ کے تحت کسی بھی شہری کو عدالتی کارروائی کے بغیر حراست میں لیا جا سکتا تھا۔ پولیس کو فری ہینڈ دے دیا گیا۔کالے قانون کے تحت جس کو جس وقت چاہے بلا وارنٹ گرفتار کر سکتی تھی اس صورت میں کوئی دلیل ،وکیل،اپیل کار گر نہیں تھی۔ شہریوں پر سیاسی،مذہبی اور تعلیمی سرگرمیاں محدود و مفقود کر دی گئیں ۔ ہندوستان کے شہریوں کے معاشی حقوق پربھی بد ترین ڈاکہ اور رہی سہی آزادی کو سلب کرنے کا مذموم اقدام تھا جس کے خلاف پورا ہندوستان حکومت کے خلاف سراپا احتجاج تھا۔
امرتسر کے واقعہ کی قتل و غارت گری کو ہند پر سے برطانوی اقتدار کے سورج کے غروب ہونے کی شروعات کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔حکومت کے خلاف سراپااحتجاج کا واقعہ 13اپریل1919ء میں مشرقی پنجاب کے شہر امرتسر میں سکھ دور کے پانچ ایکڑ کے وسیع رقبہ پر جلیانوالہ باغ میں بھی ہو رہا تھا۔ قوم پرست اور بیساکھی کے میلہ میں تقریبا ًپانچ ہزار شرکاء ، جن میں زیادہ تر سکھ مرد و خواتین شامل تھے برطانوی راج کے نئے ٹیکسز،فوج میں جبری بھرتیوں ،استحصال ،اپنے قائدین کی گرفتاریوں و دیگر نسل کش اقدامات کے خلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے۔ مظاہرین کی اطلاع ملنے پر کرنل ریجنالڈ ڈائر دو آرمڈ بکتر بندگاڑیوں اور پچاس سے زائد مسلح فوجیوں کے ساتھ شام پانچ بجے کے قریب ہٹلرانہ غیظ و غضب کی حالت میں باغ پر لشکر کشی کی اور فائرنگ کا حکم دے دیا۔برطانوی انڈین تاریخ اور انسانیت پر ظلم کی بد ترین داستان رقم ہو رہی تھیں ۔نعشوںکے کشتوں کے پشتے لگا دئیے گئے چہار سو ہنگامہ صور بپا تھا۔ کَشا کَش ،بھگدڑ میں بھی مظاہرین دب کر ہلاک ہو رہے تھے ۔خون کی کھیلی جانے والی ریاستی ہولی کے دوران شرکاء کا باغ کے ایک تنگ رستے سے باہر نکلنے کی کوشش کے دوران پہلے ہی وہاں متعین فوجیوں نے نہتے شہریوں کوچن چن کر مارنا شروع کر دیا۔لیٹ جانے والوں پر بھی نشست لیکر فائرنگ کی گئی۔کچھ افراد اپنی جانیں بچانے کیلئے باغ میں موجود کنویں میں چھلانگیں لگانے سے جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ کئی دیوار پھلانگنے کی کوشش کرنے والوں پر کُشنداؤں نے اپنی گولیاں ٹھنڈی کیں ۔متعدد زخمی طبی امداد نہ ملنے سے لقمہ اجل بن گئے ۔ بھاگنے،جان بچانے کے تمام راستے مسدود تھے ۔مسلسل دس منٹ تک ہونے والی فائرنگ ،خون ریزی کا اختتام تب ہوا جب حملہ آوروں کے پاس گولیاں ختم ہو گئیں۔واقعہ میں ہلاکتوں کی تعداد کی متضاد رپورٹس پبلک ہوئیںجس میں حکومتی ذرائع، ارباب بست و کشاد نے مرنے والوں کوپانچ سو سے ایک ہزار جبکہ زخمی ایک ہزار سے زائد ڈکلیئر کئے۔ انڈین نیشن کانگرس واقعہ میں ہلاک شدگان کی تعداد کا اندازہ ایک ہزار جبکہ مثلِ مرغِ بسمل زخمیوں کا پندرہ سو بتاتی ہے۔ شہر میں کرفیو،رَمِیدگی کے باعث کشیدگی،خوف اور سہمگین و سناٹا تھا۔ واقعہ کے چوبیس گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی مقتل گاہ سے قَتیلوںاور گھائل زخمیوں کو اٹھایا گیا نہ نالہ و فغاں سنی گئی نہ ہی اجازت تھی۔ مقتل گاہ میں پرندے ،جانور کھلے آسماں تلے پڑی کٹی پھٹی مسخ شدہ نعشوں اور زخمیوںکو نوچ رہے تھے۔ جس سے گرم موسم کے باعث تعفن پھیلنے لگا۔ سر سبز باغ کے سبزہ زار انسانی خون کا تالاب بن گئے تھے ۔نہتے شہریوں پر ریاستی لشکر کشی کا واقعہ سامراجی حکومت پر سیاہ ترین دھبہ ہے ۔ سقوطِ غرناطہ کی روداد حزیں کی یادیں دہرانے، تاریخ ہند میں خونی باب کا اضافہ کرنے والے بہیمیت و درندگی واقعہ کے اُبلتے لاوے نے زمین پر سب سے بڑی سلطنت کے اتحاد کوپارہ پارہ کر کے ظلماتی دور کے بد ترین زوال کی ابتدا کرنے اور شعلہ آزادی بن کراہم کردار کیا ۔ ایک صدی گزرنے جانے پر بھی پاکستان،ہندوستان اور بنگلہ دیش برطانوی حکومت سے اس خوں چکاںقتالِ عمد پر معافی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں ۔