رواں ماہ اپریل پر غور کیا جائے تو یہ مہینہ ملکی سیاسی ہی نہیں پارلیمانی روایات پر بھی بھاری بلکہ بہت زیادہ بھاری گذرا ہے ۔9اپریل کو اگر قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بدترین حالات دیکھنے میں آئے تو 16 اپریل کو ٹھیک ایک ہفتے بعد پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں اُس سے کہیں زیادہ بدترین حالات دیکھنے میں آئے جس کی مثال جیسے کہ ہم ا س سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ ملکی ہی نہیں دُنیا کی کسی جمہوری پارلیمانی تاریخ میں نہیں مل سکے گی اگر کوشش بسیار بھی کر لی جائے تب بھی ۔تعجب و حیرت کی بات ہے کہ جب ہم میں سے کوئی بھی پارلیمان ہو یا چاہے پارلیمان سے باہر بات کرتے ،مظاہرہ کرتے یا کسی بھی قسم کا کوئی بھی احتجاج کرتے وقت سرے سے یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ اسوقت اس ہال میں یا باہر سڑک پر ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ صرف ہم ہی دیکھ رہے ہیں اور یہ سب کچھ یہیں پر ہورہاہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔ہم جو کچھ چاہے حکومتی سطح پر ہو یا عوامی سطح پر کر رہے ہوتے ہیں وہ ہم ہی نہیں بلکہ ساری دُنیا دیکھ رہی ہوتی ہے سوشل میڈیا پر، انٹر نیٹ کے زریعے ہاتھوں میں پکڑی موبائل سمارٹ فونز کے زریعے یا پھر الیکڑانک مین سٹریم میڈیا کے چینلز کے زریعے ۔زمانہ ہی بدل چکا ہے ،اب تو وہ وقت رہا ہی نہیں کی جب بات گھر میں ہوتی تھی تو صرف گھر والوں کو ہی پتہ ہوتی تھی یا پھر کم از کم اگر باہر نکلتی بھی تو اخبارات و رسائل کی زینت بننے کے باوجود کچھ زیادہ نہیں دُور جاتی یا پھیلتی تھی بلکہ ایک مخصوص دائرہ تک ہی محدود رہتی تھی مگر اب اللہ امان بات کہتی ہے تو مجھے منہ سے نکال میں تجھے دُینا سے نکال دو ۔ہاں بھئی یہی بات ہے ۔قارئین کرام ّآپ کا کیا خیال ہے یہ جو نو اپریل کو قومی اور پھر سولہ اپریل کو پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ہوا ،یہ سب کیا صرف ہم ہی نے دیکھا اپنی اپنی ٹی وی یا سمارٹ فونز سکرینزپر ؟ کیا یہ دنگا فساد،یہ لڑائی مارکٹائی وہ بھی پارلیمان جیسے مقدس اداروں میں ،کیا صرف ہمارے گھر تک ہی محدود رہی اور دُنیا کو بالکل بھی خبر نہ ہوئی ؟ اب اِن سوالوں کے جواب کون دے گا یا چلئے اتنا کہہ دیتے ہیں کہ کسے دینے چاہیں ان سوالوں کے جواب تو اگر اس بارے میں ہماری رائے لی جائے تو ہم تو فٹ سے یہ کہہ دیں گے کہ ان سوالوں کے جواب وہی دیں یا انہیں ہی دینے چاہیں جنہوں نے یہ سب کروایا یا پھر کسی بھی حوالے سے یا کسی بھی طرح سے اِن غیر زمہ دارانہ حالات میں کسی بھی حد تک ملوث دکھائی دے رہے ہیں ویڈیو کلپس میں ۔اب تو یہ کہا ہی نہیں جا سکتا اِن ویڈیو کلپس کے ہوتے ہوئے کہ بھئی ،میں نہیں تھا اس موقع پر یا میں نہیں تھا موجود ۔یہ بات ہم پنجاب اسمبلی کے حوالے سے کر رہے ہیں جب ہم نے اِسی ایوان کے سپیکر چوہدری پرویز الہٰی کو اسمبلی کے ایک دروازے سے غنڈہ نما غیر معلقہ افراد کی کھیپ کو ہنگامہ آرائی یا چلئے ڈاریکٹ کہہ دیتے ہیں غنڈو گردی کرنے کی غرض سے اسمبلی کے اندر داخل ہوئے دیکھا ہے ۔یہ فوٹج غالباً پریس گیلری ہی سے کسی نے بنا کر غیر جانبدارانہ صحافتی زمہ داری ہی نہیں ادا کی بلکہ پارلیمان کی توقر کا حق بھی ادا کیا ہے کیونکہ یہ فوٹج اب اصل زمہ داروںکا تعین کرنے میں بڑی حد تک بلکہ حتمی حد تک مدد دے گی جس کا سہر ابھی اسی صحافی بھائی کے سر ہوگا جس نے یہ فوٹج بنائی ورنہ تو مشکل پڑ جانی تھی کسی کو بھی اس سارے واقعے کا زمہ دار ٹہراتے ہوئے مگر ہمیں کوئی خوشی بھی نہیں ہو رہی چوہدری صاحب کو اس بدترین پارلیمانی روایات کی یوں بلاخوف و خطر پامالی کا زمہ دار ٹہراتے ہوئے مگر کیا کیا جائے کہ یہ ویڈیوکلپ جو موجود ہے ثبوت کے طور پر ،تو کیسے نہ زمہ دار قرار دیا جائے انہیں کہ منصوبہ بندی کی ہی انہوں نے ہی ہے ۔انہوں ہی نے پہلے سے طے شدہ منصبوبے کے تحت’’ بندوں ‘‘کا بندوبست کیا اور جب انہوں نے اُن بندوں کو جنہیں ایم پی ایز کہتے ہیں کا بندوبست ان ’’بندوں ‘‘ کے زریعے کرنا کرنا شروع کر وایا تو پھر وہ بندے جنہیں ایم پی ایز کہا جاتا ہے نے چوہدری صاحب سمیت اُن کے بھیجے ہوئے ’’بندوں ‘‘ کا بندوبست کر دیاتو اس میں برُ ا ہی کیاہے کہ ہو تو بندوبست ہی رہا تھا چاہے اِن کا ہو یا اُن کا ، حساب برابر ۔ اب زرا تھوڑا بہت جائزہ لئے لتے ہیں قومی اسمبلی کا بھی جہاں بھی کچھ اسی طرح کی صورتحال پیش آئی تھی 9 اپریل کو مگر خدا کا شکر کہ بات پنجاب اسمبلی جیسی صورتحال سے پہلے ہی معاملات کنڑول میں کر لیے گئے نہیں توشائد یہاں بھی وہی کچھ ہوتا جو پنجاب اسمبلی میں ہوا ۔قومی اور پنجاب اسمبلی میں ہونے والی غیر زمہ دارانہ ہی نہیں شرمناک صورتحال کے زمہ داروں کا تعین کیا جائے تو وہ تو ہو چکے بہر حال جو ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔پنجاب میں اگر ق لیگ تو قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی ،دونوں نے پارلیمانی روایات کی جو دھجیاں بکھریں وہ دیکھ کرہر کوئی کہہ رہا ہے کہ جب سے پی ٹی آئی ملکی سیاست میں آئی ہے تب سے سیاست میں سیاست کم اور بدتمیزی زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے ،ہم بھی اس کہے سے اتفاق کرتے ہیں مگر بہتری کی توقع کے ساتھ ۔اب اگر عمران خان بمعہ پی ٹی آئی کے ملکی سیاست کا حصہ بن ہی گئے ہیں تو ضروری ہے کہ سیا سی و پارلیمانی اقدار کا خیال رکھا جائے ،عمران خان کیلئے تو یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ سپورٹس مین رہے ہیںکھیل سیاست میں ہار جیت ہوتی ہے کل وہ اقتدار میںتھے آج شہباز شریف اقتدار میں ہیں ۔انہیں شہباز شریف اور اِن کی حکومت کو تسلیم کر کہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہی سہی بہتر اپوزیشن لیڈر بن کر پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم کا پاکستان بناکر اِس کی جگ ہنسائی کا باعث بننے کی بجائے اس کی نیک نامی کا باعث بننا چاہیے جو وہ یہ زمہ داری پاکستان کا وزیر اعظم بن کر اپنے زمہ لے چکے ہیں ۔