مرادوں بھری رات لیلتہ قدر جس کی عظمت و فضیلت کی گواہی خود رب جلیل دے رہا ہے۔ جس نے بھی اس رات کو پایا "گویا اس نے اس رات کی برکتوں اور جلوتوں میں خود کو سمو لیا"۔ اس رات کے مسافر کا کیا کہناجس نے اس رات کی پرطمانت ساعتوں میں کون ومکاں کی مسافت کا دیدار کیا ہو۔ کسی قاری کی تقریر، کسی مصنف کا قلم، کسی سخن گوکی رباعی اس رات کی برکتوں اور جلوتوں کو زیر حرف لانے سے قاصر ہے۔ اتنی پرسکون ساعتیں جس کا ہر لمحہ کامیابی کی نوید دیتا ہو، اس کے اثرات کی اتنی دل پذیری کہ رات ڈھلنے پر بھی طلوع ہونے والا سورج تمازت کھو بیٹھتا ہو تو اس رات کی برکتوں، عظمتوں کا احاطہ کسی بھی قلم کی استطاعت سے ماوراء ہے۔ " قرآن پاک" کا سفر بھی اسی رات کی جلوتوں میں وقوع پذیر ہوا۔ وہ قرآن جس کی سچائی اور عظمت کی گواہی خود باری تعالیٰ نے " ذلک الکتب لا ریب" نے کہہ کر دی ہو۔ اور جو بھی اس کتاب پر ایمان لایا اور عمل کیا، اسی نے ہدایت پائی۔ یہ اللہ جل جلالہ کی عنایت ہی ہے کہ اہل مسلم کو زندگی کے ہر سال اس رات کا تحفہ عنایت فرمایا۔ اور وہی کامیاب و کامران ہیں جو اس بابرکت رات کی برکات سے آشنا ہوئے۔ پاکستان کا قیام بھی اسی بابرکت رات کو ہوا۔ رب جلیل نے تو برصغیر پاک وہند کو وہ خطہ ارض دیا جس نے اسلام کا قلعہ بننا تھا۔ اور یہ وہی رات تھی کہ ملائکہ کی سواریوں کے نزول میں آبروئے صحافت"مجید نظامی" کی روح بھی اپنا ارضی سفر ختم کرکے رب جلیل کی بارگاہ میں جانے کیلئے جہانِ فانی سے رخصت ہو رہی تھی۔
ان کی زندگی کا سفر جہد مسلسل کی داستان ہے۔ آمرانہ دور حکومت میں بھی ان کے پایہ استقلال میں جنبش نہ آئی۔ آمریت ہو یا جمہوری ادوار کی چالبازیاں لیکن آپ کسی چٹان کی مانند اپنے اصولوں پر کھڑے رہے۔ آپ کا حسن تدبر نوائے وقت کیلئے ہی مخصوص نہ تھا بلکہ آپ کی راہبری اور راہنمائی اہل صحافت کو بھی جلا بخشتی تھی۔ ایوب ہو یا بھٹو، ضیاء الحق ہو یا کوئی جمہوری دور کا ڈکٹیٹر، اصولوں پر ڈٹ جانا آپ کاطرہ امتیاز تھا۔ افسوس! آج کوچہ صحافت کسی ایسے راہبر سے خالی ہے جو قلم کی حرمت کا خیال بھی رکھے اور کوئی لالچ انہیں اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور نہ کر سکے۔ پاکستان کو اسلام کا قلعہ سمجھتے تھے۔ کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ مانتے تھے۔ اتحاد بین المسلمین کے قائل تھے۔ میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، ہر ملاقات میں قائداعظم اور علامہ اقبال کے حوالے سے کوئی بات ضرور کرتے۔ ان کی بیباک اور شفقت آمیز شخصیت ہر کسی کو آپ کا گردیدہ کر دیتی تھی۔ آج اہل اسلام کے حالات ناگفتہ بہ ہو چکے ہیں۔ صیہونی طاقتوں نے ہر طرف پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں آبروئے صحافت جیسے ہی کسی اہل قلم کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔آج پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار کوئی اور نہیں، ہم خود ہیں۔ کیا ہمارے ادارے، ہماری عدالتیں، اسٹیبلشمنٹ بلکہ پارلیمان میں بیٹھے معزز اشرافیہ پاکستان کے موجودہ حالات کے ذمہ دار نہیں؟ قدرت کاملہ نے تو پاکستان کو ہمہ قسمی وسائل سے نوازا لیکن ہم نے قرضوں کو اپنی آسائش کا سامان بنا لیا۔ کیا اقتدار میں بیٹھے افلاطون بزرجمہروں کو علم نہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی ورلڈ آرڈر کے تحت مستقبل کی منصوبہ بندی ہو چکی تھی کہ تمام نوآبادیوں کو آزاد کرکے انہیں مالیاتی جال میں جکڑا جائے۔ اس مقصد کیلئے International Bank of Reconstruction and Development "ورلڈ بینک" اور عالمی مالیاتی ادارہ "IMF" قائم کیا گیا تھا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی ہی جدید شکلیں تھیں تاکہ نوآزاد نظام کو اپنے قابو میں رکھا جا سکے۔ شب قدر کی ساعتوں میں ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہوگا اور اپنی خامیوں کا ادراک کرنا ہوگا۔ رب جلیل سے معافی کا طلبگار ہونا ہوگا۔ اگر ہم مسلمان ہیں تو ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ اختیار دراصل فرائض سے ملزوم ہے۔ اللہ ہمیں سچ کے راستہ پر چلنے اور لیلۃ القدر کے مسافر"مجید نظامی" کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میری دعا ہے کہ ان کے بنائے ہوئے ادارے نوائے وقت اور دی نیشن ہمیشہ قائم رہیں اور آبروئے صحافت کے اصولوں کی پاسداری کا چراغ یونہی اہل قلم اور وقت کے حکمرانوں کو روشنی دکھاتا رہے۔ آمین