مجید نظامی سوشلزم کے غیر اسلامی اور غیر نظریاتی نعروں کے خلاف بھی بڑی بہادری اورجانبازی سے سینہ سپر رہے ۔ وہ نوائے وقت کے صفحات اور کالموں کے ذریعے عوام کومسلسل اور متواتر بیدار کرتے رہے اور برابریہ یاد دلاتے رہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر زندہ رکھا جاسکتا ہے ۔ مسئلہ ختم نبوت پربھی انہوں نے بے لچک اور واضح حکمت عملی اختیار کی اور ان تمام دینی ٰتحریکوں میں پیش پیش رہے جن کا نصب العین قادیانیوں کو مسلم دھارے سے باہر رکھنا تھا کیونکہ ان کا اس بات پر پختہ ایمان تھاکہ جو شخص حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲکا آخری نبی نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے ۔ خود انہوں نے واضح الفاظ میں قادیانیوں کو انگریز کے خودکاشتہ پودے کے برگ و بارقرار دیا اوراس مسئلہ پر کسی منافقت اورمصالحت کیلئے کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔22 اگست 1980ء کو وفاق سے میر ابائیس سال کا تعلق ختم ہوا اور میں نے روزنامہ تجارت جو18فروری 1974ء سے شائع ہو رہا تھا اپنی الگ حیثیت میں نئے دفتر سے شائع کرنا شروع کیا۔ انہی دنوں لاہور ایوان صنعت وتجارت نے عالمی ایوان ہائے صنعت وتجارت کے صدر محمد علی رنگو ن والا کے اعزاز میں اواری ہوٹل میںعشائیہ کا ہتمام کیا ، جناب مجید نظامی بھی اس عشائیہ میں شریک تھے ۔ وہ کھانا شروع ہونے سے قبل ہی مجھے یہ کہہ کروہاں سے نیچے لابی میں لے آئے کہ تمہیںبھی میری طرح کھانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی اورازراہ کرم مجھے نوائے وقت کراچی ایڈیشن میں بطور ریذیڈنٹ ایڈیٹر کام کرنے کی دعوت دی مگر میں ’’تجارت ‘‘زیادہ بہتر انداز میں نکالنے کا عزم کر چکا تھا اس وجہ سے ان کی پیشکش سے استفادہ نہ کرسکا ، اپنے ایک پرانے کارکن اور نیاز مند کی ہمت افزائی کے اس انداز اوراعزازنے مجھے ہمیشہ ان کا زیر بار رکھا ۔
مجید نظامی نے ستر کے عشرے میں کچھ عرصہ کے لئے نوائے وقت سے علیحدگی اختیارکرکے ایک نیاروزنامہ ’’ندائے ملت ‘‘ نکالا ۔ مگر جب نوائے وقت ایک عدالتی فیصلہ کے ابتلاء میں مبتلا ہوا اور اندیشہ ہواکہ نوائے وقت کی اشاعت شاید تعطل کا شکار ہوجائے تو انہوں نے آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے بھتیجوں شعیب نظامی اور عارف نظامی کا دل وجان سے ساتھ دیا۔ مصطفی صادق اور اس خاکسار کی زیرادارت شائع ہونے والے روزنامہ ’’ وفاق ‘‘ نے اس روز نوائے وقت کی اشاعت کو ممکن بنانے کے لئے جناب مجید نظامی کی ہدایت پر اپنی کاپی ادارہ نوائے وقت کو مہیا کی اور نوائے وقت وفاق کی کاپی پر اپنی لوح کے ساتھ شائع ہوا۔ آزمائش وابتلاء کی اس گھڑی میں جناب مجید نظامی نوائے وقت کی مدد کوآئے ان کے اس فیاضانہ برتائونے چند ہی مہینوں میں ندائے ملت اور نوائے وقت کے انضمام کی راہ ہموار کردی اور25 مارچ1971ء سے نوائے وقت دوبارہ جناب مجید نظامی کی زیر ادارت اورندائے ملت پبلی کیشنز کے زیر اہتمام شائع ہونے لگا مگر نیا نوائے وقت 20x30سائز کے بجائے 23x33سائز پر اورآٹومیٹک اور ہینڈ فیڈ مشینوں کی بجائے روٹری مشین پرچھپا۔نوائے وقت کے کراچی ایڈیشن کا اجراء عمل میں آیا ، رنگین ایڈیشن کراچی کے پرنٹنگ پریس سے شائع ہونے لگے ۔ لاہور، ملتان اور راولپنڈی ایڈیشنوں میں نئی رُوح پھونکی گئی ۔ انگریزی روزنامہ نکالنے کے لئے جناب حمید نظامی کے خواب کو حقیقت کی شکل دی گئی اور ’’نیشن ‘‘کا اجراء ہوا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ہو یا کارگل کا معرکہ ،نوائے وقت پاکستان کے اصولی اور بنیادی موقف کا پرچم ہاتھ میں لئے ڈٹا رہا ۔ جناب مجید نظامی کے باون سالہ دور ادارت کا سب سے اہم اور تاریخ ساز کارنامہ مختصر الفاظ میں یہی ہے کہ انہوں نے نوائے وقت کے مدیر کی حیثیت سے جن نظریات اورروایات کا علم تھاما اور جو اقدار جناب حمید نظامی نے بطور مثال ان کے لئے چھوڑی تھیں ،تندیٔ بادِ مخالف کے بادجود انہوں نے ان نظریات،روایات اوراقدارکی پاسبانی کا خوب حق اداکیا۔ انہوں نے پاکستان میں اسلام کی سر بلندی اور عظمت کے لئے کام کرنے والوں کونوائے وقت کی صُورت میں اپنی آواز بلند کرنے کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم مہیا کیا۔ وہ خود قافلۂ صحافت کے ایک جرنیل کی حیثیت سے ہم خیال قوتوں کی بکھری اور منتشر صفوں کی شیرازہ بندی کرتے رہے ۔ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت ہو یا نوازشریف اوربے نظیر بھٹو کے ’’جمہوری اور پارلیمانی ادوار ‘‘مجید نظامی نے آزادی صحافت کے بنیادی اصولوں پر کسی حکمران سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ، وزیراعظم نوازشریف کے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں جب ایک میڈیا سیمینار کے دوران ان کا نواز شریف کے ساتھ آمنے سامنے مکالمہ ہواتو مجید نظامی کے تیز و تند فقروں نے ’’بادشاہ سلامت ‘‘ کا مزاج برہم کردیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک دوست نے جناب مجید نظامی سے دریافت کیاکہ آج کل نوازشریف کے ساتھ ان کے تعلقات کسیے ہیں ؟مجید نظامی نے بر جستہ اوربر محل جواب دیا’’نوازشریف سے تعلقات ہمیشہ کی طرح اچھے ہیں مگروزیراعظم سے تعلقات خراب ہیں ۔ ‘‘
مجید نظامی اس لحاظ سے ایک منفرد صحافی تھے کہ وہ اپنے ذاتی دوستانہ تعلقات کو قومی اور ملی مفادات کے تقاضوں پر حاوی نہیں ہونے دیتے تھے۔ جہاں تک بھارت کا تعلق ہے جس طرح قائد اعظم ہندوقیادت کی عیاری اور مکاری کو خوب جان گئے تھے اور اس سلسلے میں انہیں کوئی اُن کے موقف سے نہیں ہٹا سکتا تھا۔ اسی طرح مجید نظامی کی بے انتہا پاکستان دوستی نے انہیں ملک کا سب سے بڑا ہندوستان دشمن بھی بنادیاتھا۔ نوائے وقت کے ہزاروں صفحات لاکھوں کالم اورکروڑوں الفاظ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ مجید نظامی کی زیر ادارت نوائے وقت ہندوستان کے جار حانہ عزائم کے سامنے ایک سیسہ پلائی دیوار کی حیثیت رکھتا ہے ۔ شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے انہیں اپنے دورہ ہندوستان میں ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی تو ذہنی اور اعصابی طور پر ہمیشہ چوکس مجید نظامی نے دعوت کے الفا ظ سنتے ہی کہا تھا کہ میں تو پاک فوج کے ٹینکوں پر ہی ہندوستان جائوںگا۔
وطن عزیز کا یہ سب سے قد آور دلیر اور جری ایڈیٹر اپنی صحافت کے ستّر اور ادارت کے باون سال گزارکر اوردل کے ہاتھوں کئی چرکے اٹھا کر25 اور26 جولائی2014 ء کی درمیانی شب تیرہ دن کی علالت کے بعد لیلتہ القدر کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی صحافت کا با نکپن ان کے قلم کی تلوار جیسی دھار کامرہون منت تھا۔ ہماری دعا ہے کہ انہیں اﷲتعالیٰ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، ان کی صاحبزادی رمیزہ نظامی اور ان کے بھتیجوں شعیب نظامی اور عارف نظامی کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
مجھے کم وبیش بتیس سال تک اے پی این ایس میں ان کی قیادت میں کام کرنے کے مواقع نصیب ہوئے ۔ میں ان کی تائید و حمایت سے 1992ء میں کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز CPNEکا سیکرٹری جنرل منتخب ہوا۔ بعد میں بعض مواقع پر قدرے اختلاف کے مواقع بھی میسرآئے اور مجھ سے کچھ گستاخیاں بھی سر زد ہوئیں مگر میں جب بھی ان کے سامنے حاضر ہوا ان کے دفتر میں گیا یا ان کے دولت کدہ پر حاضری دی وہ اپنے روایتی تپاک اورخلوص سے اِس عاجزکی آئو بھگت کرتے رہے اور میری وضاحت یا صفائی کے بعد یہی محسوس ہواکہ انہیں کوئی تلخی یاد تک نہیں ۔ یہ ان کی شخصیت کا ایک ایساوصف ہے جسے فراموش کر دینا میرے لئے کبھی ممکن نہ ہوگا۔ میں ذاتی طور پر ان کے دنیا سے رخصت ہونے پر بہت غمگین ہوں اوراسے قومی نقصان کے ساتھ ساتھ اپنا ذاتی نقصان بھی تصور کرتا ہوں میں نے حمید نظامی اور مجید نظامی کی تربیت گاہوں سے اکتساب فیض کیا اور میں آج جو کچھ بھی ہوں ان میں خوبیاں اُن سے حاصل کیں اور خامیوں کا ذمہ دار میں خود ہوں۔(ختم شد)