قافلہ صحافت کے امام اور سب سے بڑے پاکستانی

ذوالفقار احمد چیمہ
مجید نظامی تمام پاکستانیوں میں سب سے منفرد اور ممتاز تھے۔ اس لئے نہیں کہ وہ صاحب اقتدار تھے یا ان کے پاس کوئی بڑا عہدہ تھا۔ ان کے پاس تو کوئی عہدہ نہیں تھا۔ بڑے سے بڑا عہدہ ان کی ذات سے ہیچ تھا۔ مگر وہ بلاشبہ سب سے بڑے پاکستانی تھے اور کروڑوں پر بھاری تھے۔
حکومتیں ان سے خوفزدہ رہتی تھیں۔ اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے۔ اور حکمران اپنی غلط کاریوں کے باعث ان سے ڈرتے تھے۔ غیروں کے کہنے پر یا عالمی طاقتوں کے زیر ثر حکمران، پاکستان کے مفاد کے منافی کئی اقدامات کرنا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے کیونکہ مجید نظامی زندہ تھا اور نوائے وقت موجود تھا۔ انفرادی سطح پر بے شک وہ پاکستان کا سب سے بڑا محافظ تھا۔ وہ مرد درویش جس کو حق نے دیئے تھے اندازِ خسروانہ۔ مخالفتوں اور سازشوں کی آندھیوں میں بھی پوری سج دھج سے اپنا چراغ جلاتا رہا۔ کئی روایتی سے جملے کسی خاص شخصیت کے ساتھ منسلک ہو کر زندہ و جاوید ہو جاتے ہیں۔ نظامی صاحب کو جب آبروئے صحافت کہا جاتا تھا تو کہنے والا دل سے سمجھتا تھا کہ ہ ذرا بھی مبالغہ نہیں کر رہا۔ بڑے سینئر صحافی خود کہتے تھے کہ مجید نظامی کی ذات نے صحافت کو عزت، وقار اور اعتبار بخشا ہے۔ سب مانتے تھے کہ قافلہ صحافت کے وہی امام ہیں اور وہ سپہ سالار!جابر ڈکٹیروں کے دربار میں جہاں سب ہاتھ باندھے کھڑے ہوئے تھے، کچھ قصیدے پڑھ رہے ہوتے تھے، کئی آمروں کے جاہ و جلال سے کانپ رہے ہوتے تھے، بہت سے اپنے مفادات و اغراض کی عرضیاں پیش کر رہے ہوتے تھے، اس ماحول میں بھی جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق بلند ہوتا تھا، ڈکٹیٹروں کو للکارا جاتا تھا، آمروں کو کھری کھری سنائی جاتی تھیں، ایک آواز ایسی گونجتی تھی کہ ماحول بدل جاتا تھا، آمر پریشان ہو جاتے تھے اور سہمے ہوئے مدیروں میں جان پڑ جاتی تھی مگر وہ ایک ہی آواز تھی جو آج خاموش ہوگئی ہے۔
مجھے ان سے اس لئے عقیدت تھی کہ انہیں پاکستان سے عشق تھا اور وہ اس کے لئے لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ سیاست میں نظامی صاحب صرف دو شخصیات کے پیروکار اور مرید تھے کوئی تیسرا ان کی نظروں میں جچا ہی نہیں۔ علامہ محمد اقبال اور محمد علی جناح کے بعد کوئی جچتا بھی کیسے!! ان کی محبت، عشق، ہدف اور منزل صرف پاکستان تھا۔ ان کے روئیں روئیں اور رگ رگ میں پاکستان کی محبت رچی بسی تھی۔ پاکستان پر کوئی مشکل گھڑی آتی، کوئی تشویش کی صورت حال پیدا ہوتی تو ملک سے محبت کرنے والے مجید نظامی صاحب کے پاس پہنچتے اپنی تشویش ان کے ساتھShare کرتے اور ان سے حوصلہ اور امید افزاء پیغام لے کر لوٹتے۔
میری مجید نظامی صاحب کے ساتھ برسوں پرانی نیازمندی تھی۔ مجھ سے بہت شفقت کرتے تھے۔ میں ان سے بے شمار مرتبہ کی رہائش گاہ پر ملا۔ کئی بار میں اور شہباز شیخ اکٹھے ملے۔ ہر بار ان کی شفقت اور محبت کے نئے رنگ وروپ نظر آئے۔ لوگ کہتے تھے مگر مجھے ان کے ہاں تکبر نظر نہیں آیا، ہاں اقبال اور قائداعظم کے سپاہی مجید نظامی میں خودی اور خودداری کی فراوانی تھی اور یہ اس کا حق تھا۔ ان کے ساتھ میں نے کئی بار تقاریب میں شرکت کی۔ کئی بار میری تقریر کے بعد مجید نظامی صاحب کی طرف سے خصوصی تحسین اور حوصلہ افزائی ہوتی تھی مگر ایک تقریب کبھی نہیں بھول سکتا۔ سکولوں کے طلباء و طالبات کو تحریک پاکستان کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنے اور قائداعظم اور علامہ اقبال کے نظریات و تعلیمات سے روشناس کرانے کے لئے وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں نظریاتی سمر سکول کا انعقاد کیا کرتے تھے جہاں بچوں سے خطاب کے لئے مختلف شخصیات کو بلایا جاتا تھا۔ ایک مرتبہ ان کی طرف سے مجھے طلباء و طالبات سے خطاب کرنے کی دعوت ملی۔ اب یہ دعوت میرے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ میں ان دنوں گوجرانوالہ میں ڈی آئی جی تھا۔ مصروفیات بہت ہوتی تھیں مگر نظامی صاحب کے حکم کی بجا آوری میں وقت مقررہ سے پہلے پہنچ گیا۔ منتظمین کی زبانی مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ’’مجید نظامی صاحب خود تشریف لائیں گے کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ میرے آنے تک تقریب شروع نہ کریں‘‘۔ عین وقت پر مجید نظامی صاحب، ڈاکٹر رفیق احمد صاحب کے ہمراہ تشریف لے آئے اور ہم اکٹھے ہال میں چلے گئے۔ بڑا روح پرور ماحول تھا۔ ہال پہلے قومی ترانے اور ملی نغموں سے گونجتا رہا۔  پھر مجھے خطاب کی دعوت دی گئی۔ میں نے سامعین کی ذہنی سطح کو پیش نظر رکھتے ہوئے سادہ مگر پرجوش الفاظ میں پاکستان اور بانیان پاکستان کی باتیں کیں۔ بچے بڑے جوش و خروش سے تالیاں بجاتے رہے۔ میں روسٹرم سے نیچے اترا تو مجید نظامی صاحب کھڑے ہوگئے اور انہوں نے آگے بڑھ کر مجھے تھپکی دیتے ہوئے کہا’’آپ کا motivational خطاب سن کردل بڑا خوش ہوا ہے‘‘۔ پھر انہوں نے جیب سے بٹوہ نکالا اور اس میں سے ایک ہزار روپے کا نوٹ نکال کر مجھے دیتے ہوئے کہا’’یہ میری طرف سے آپ کے لئے انعام ہے اسے قبول کریں‘‘۔ میں نے کہا’’یہ میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ یہ نوٹ میرے لئے ہمیشہ قیمتی اثاثے کی حیثیت سے محفوظ رہے گا‘‘۔
پھر خالق کائنات نے انہیں اپنے پاس بلا لیا  اور بلانے کے لئے اسی دن کا انتخاب کیا  جس دن پاکستان وجود میںآیا تھا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ ملک میں نہ کوئی اس کا نعم البدل ہے اور نہ اس کا خلاپورا ہونے کا کوئی امکان نظر آتا ہے۔ نظامی صاحب کے اٹھ جانے سے بلاشبہ پاکستانیت کے قلعے کی ایک مضبوط دیوار گر گئی ہے۔ یہ وہ دیوار تھی جس کے گرنے کا ملک کے دشمنوں کو کئی سالوں سے انتظار تھا۔ اب پاکستان سے محبت کرنے والوں کو پہلے سے کہیں زیادہ چوکس رہنا ہوگا اور اس کے محافظوں کو ہمہ وقت جاگتے رہنا ہوگا۔ کائناتوں کے خالق اور مالک سے دعا ہے کہ نظامی صاحب کو جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائیں اور پاکستان کی حفاظت فرمائیں اور اسے قیامت تک قائم اور دائم رکھیں۔ آمین۔

ای پیپر دی نیشن