عبدالقادر حسن
پاکستان کے اپنے وقت کے سب سے زیادہ باوقار اور بااثر اخبار نوائے وقت کے معمار مجید نظامی مرحوم کی یاد پھر سے نہاں خانہ دل میں اتر آئی ہے۔ جہاں تک میرا ذاتی تعلق ہے، میری صحافت کا ہر لفظ ان کے نام سے شروع ہوتا ہے اور ان کی نیازمندی اور شکریہ پر ختم ہوتا ہے۔ پاکستانیوں کے لئے نظامی صاحب کے نام کے ساتھ سیاست اور تحریک پاکستان اور اس کے نظریات نتھی ہو چکے ہیں اور ان کے ذکر کے بغیر نظامی صاحب کا ذکر ایک گستاخی سمجھا جاتا ہے اور حقیقت بھی ایسی ہی ہے۔ لیکن میرا ان کے ساتھ ذاتی تعلق یعنی میری صحافت کا ان کے ساتھ تعلق میری ذات تک جدا اور ہر دوسرے تعلق سے بڑھ کر ہے، میں اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مرحوم کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناح اور تحریک پاکستان کا تعلق اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ اس میں ان کی صحافیانہ عظمت چھپ گئی ہے جبکہ انہوں نے ایک صحافی مکتب فکر کی بنیاد رکھی۔ یہ نظریاتی مکتب تو تھا ہی‘ ایک مدرسہ بھی تھا جس کے فارغ التحصیل طلبہ میں سے میں بھی ہوں۔ مجید نظامی صاحب کا ذکر میں اس لئے نہیں کر رہا کہ ان کے تعلق کی نوعیت دوسری تھی۔ ایک بڑا بھائی اور اتالیق دوسرا برخوردار اور شاگرد۔ میں ایک اجنبی ان کی شاگردی میں آ گیا۔ جس کی تربیت کا آغاز مرحوم نے کیا مگر اسے صیقل انکے بھائی اور جانشین مجید نظامی صاحب نے کیا۔
لاہور میں ایک کافی ہائوس ہوا کرتا تھا جس میں سیاسی کارکن اور صحافی بیٹھا کرتے تھے جیسے ٹی ہائوس ادیبوں کیلئے مخصوص تھا۔ میں ایک سیاسی جماعت کے کارکن کی حیثیت سے کافی ہائوس میں جایا کرتا تھا جہاں مرحوم حمید نظامی صاحب کا اس قدر رعب اور دبدبہ تھا کہ ہر کسی کو ان کے قریب جانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی لیکن وہ مجھے جانتے تھے۔ میں اپنی مصروفیات کے چکر میں لاہور سے جوہرآباد چلا گیا لیکن وہاں بیزار ہو گیا چنانچہ میں نے ایک دن حمید صاحب کو خط لکھا کہ میں صحافت میں آنا چاہتا ہوں۔ انکی حسب عادت دوسری ڈاک سے جواب موصول ہوا جس میں میری صحافت سے دل شکنی کی گئی اور لکھا کہ یہ پیشہ اور شعبہ باہر سے جیسا نظر آتا ہے اندر سے ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہر طرح کی آزمائشوں سے بھرا ہوا۔ اس پیشے کو بہت سوچ سمجھ کر اختیار کرنا چاہئے۔ میں نے اس خط کو یک گونہ اپنی پذیرائی سمجھا اور دوسری ڈاک سے خود ان کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ وہ باہر لان میں بیٹھے تھے ڈھلتی سہ پہر کا وقت تھا۔ بچے بھی قریب ہی کھیل رہے تھے، انہوں نے عارف کو آواز دی کہ اندر چائے کیلئے کہہ دو۔ اس دوران انہوں نے مجھے ہدایت کی کہ کل میں دفتر میں شیخ حامد محمود صاحب سے مل لوں جو نوائے وقت کے حصہ دار اور منیجنگ ایڈیٹر تھے۔ شیخ صاحب نے جو حسب معمول صبح دفتر آنے سے پہلے نظامی صاحب سے مل چکے تھے، مجھ سے ایک مالک کا نہیں بزرگ کا سلوک کیا اور میرے اخراجات کی پوری تفصیل معلوم کی جبکہ میں مال روڈ پر وائی ایم سی اے ہاسٹل میں رہتا تھا اور ہوٹلوں سے کھاتا تھا لیکن اس زمانے میں حجامت دھوبی وغیرہ کے ماہانہ اخراجات ایک سو روپے سے کم تھے۔ چنانچہ انہوں نے بیس روپے میرا جیب خرچ اور ایک سو تنخواہ مقرر کر دی۔ دفتر والوں کو تعجب ہوا کہ اپرنٹس کو تو ستر اسی روپے ملا کرتے تھے، اسے ایک سو سے بھی اوپر کیسے مل گئے۔ اس پر میرے کچھ سینئرز کا ماتھا ٹھنکا۔ انہوں نے اپنے اس انتہائی جونیئر کی نااہلی کا کیس بنا کر پیش کیا لیکن نظامی صاحب نے مسترد کر دیا اور کہا کہ اسے تربیت تو حاصل کرنے دیں۔ یہاں میں یہ ذکر کر دوں کہ نوائے وقت کا ادارہ محض ایک کاروباری ادارہ نہیں تھا۔ یہ دہائیوں سے اعلیٰ قدروں کا امین اورصحافت کی تربیت گاہ تھا۔ یہاں جو نامور صحافی پیدا ہوئے وہ اپنے میدان میں آج تک حوالے کیلئے مستند سمجھے جاتے ہیں۔ تعجب ہے کہ اس ادارے کے معلم اعلیٰ خود باقاعدہ کسی صحافتی تربیت سے نہیں گزرے تھے بلکہ انہوں نے صحافت میں کئی نئی طرحیں ایجاد کیں۔ تاریخ میں پہلی اردو صحافت کو انگریزی کے ہم پلہ بنا دیا بلکہ نوائے وقت کے ادارئیے قومی رہنمائی کا بہت بڑا ذریعہ بن گئے۔سیاستدان اور حکمران ان اداریوں کی مخالفت یا حمایت میں سیاست کرتے تھے۔ یہ پہلا اخبار تھا جس کے اداریئے خبروں پر سبقت لے گئے۔ آسان ترین زبان چونکہ چنانچہ کے بغیر صاف انداز میں اظہار خیال۔ ٹھونک بجا کر بات کرنے کا سلیقہ نوائے وقت نے ایجاد کیا‘ جن لوگوں نے نظامی صاحب کے تحت کام کیا وہ ان کاغذی چٹوں سے ہی تربیت پاتے رہے جو ہر ایک کو اس کی کسی غلطی پر بھیجی جاتی تھیں ۔
میں آج تک یہ الجھن حل نہیں کر سکا کہ وہ مجھ پر اس قدر مہربان کیوں تھے۔ میں نے ایک انتہائی گستاخی کی اور ناتجربہ کاری میں نظامی صاحب کے سخت دشمن صحافتی ادارے میں چلا گیا اور ہفت روزہ لیل و نہار میں کام کرنے لگا جس کے ایڈیٹر فیض احمد فیض اور سید سبط حسن تھے۔ جب چند برس بعد اس ادارے پر ایوب خان نے قبضہ کر لیا اور اس کے اخبارات کو نیشنل پریس ٹرسٹ میں ضم کر دیا تو استعفیٰ دینے والوں میں جو لوگ شامل تھے میں بھی ان میں شامل تھا‘ میرے استعفے کی وجہ نظریاتی نہیں بلکہ یہ تھی کہ میں سرکاری ملازمت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں نے واپسی کیلئے نظامی صاحب کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا۔ اور خط لکھ دیا‘ دوسرے دن انکے دفتر سے فون آیا کہ میں نظامی صاحب سے مل لوں‘ میں زندگی میں دوسری بار ان کے گھر گیا تو انہوں نے مجھ سے صرف اتنا پوچھا کہ تم کہیں کمیونسٹ تو نہیں ہو گئے۔ میں نے نفی میں جواب دیا اور انہوں نے مجھے نوائے وقت کے دفتر اس تنخواہ پر بھجوا دیا جو میں لیل و نہار سے لیتا تھا‘ یعنی کوئی پونے چار سو روپے ماہوار جو اس ادارے کے اصول کیمطابق ایک سی ایس پی کی تنخواہ ہوتی تھی۔
میرے سینئرز نے موقع پا کرمجھے ادارے سے نکلوا دیا۔ مجید نظامی صاحب مل گئے اور پوچھا کیا کر رہے ہو، میں نے بتا دیا۔ انہوں نے کہا کہ کل مجھے مل لو۔ ان دنوں میں ایک نیوز ایجنسی چلا رہا تھا، اس کی جتنی آمدنی ہوتی تھی، اتنی تنخواہ پر مجھے رکھ لیا گیا۔ میں نے رپورٹنگ شروع کر دی تو اس دوران کبھی کبھار کالم بھی لکھ دیا کرتاجو باتیں اداریہ یا خبر میں نہیں آتی تھیں ان کو کالم میں درج کر دیتا۔ مجید نظامی صاحب نے میرے کالموں میں دلچسپی لی اور انکی نوک پلک درست کرنے لگے۔ طنز نگاری میں مجید نظامی صاحب کا مدمقابل میں نے نہیں دیکھا۔ وہ میرے کالم کو کیا سے کیا بنا دیتے تھے، بس ذرا سی ترمیم کے ساتھ۔ میں آج اپنی مداح اور تعریف کی جرات کئے بغیر عرض کرتا ہوں کہ میں اس طرح ایک کالم نگار بن گیا۔ نظامی برادران کے صدقے میں اپنے آپ کو ایک صحافی سمجھتا ہوں لیکن میری صحافتی زندگی میں جناب مجید نظامی کا بڑا حصہ اور توجہ ہے۔ انکے مکتب صحافت نے میرے جیسے شاگردوں کو بھی سنبھال لیا اور انکی تحریروں کو صیقل کرکے انہیں کامیاب صحافیوں کی صف میں شامل کر دیا۔