مجید نظامی کی رحلت

لیفٹیننٹ جنرل(ر)عبدالقیوم 

پچھلی صدی کی ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں راقم کالج میں زیرتعلیم تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں فیلڈ مارشل ایوب خان کا طوطی بولتا تھا۔ آمریت کے اس دور میں جہاں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح جیسے محسنِ پاکستان کو  تمام تر اخلاص، ایثار اور قربانیوں کے باوجود سیاست میں آگے نہیں آنے دیا گیا‘ وہاں حکومت کے خلاف کچھ بولنا یا لکھنا  بھی شیر کے منہ میں ہاتھ دینے کے مترادف تھا۔ ان حالات میں صحافت کے میدان میں اگر کسی ادارے نے ناقابل یقین جرأت کا مظاہرہ کیا تو وہ نوائے وقت میڈیا گروپ تھا۔ جس کے ہراول دستے کے قائد صحافت کے فیلڈ مارشل مجیدنظامی تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نوائے وقت اس دور کا مقبول ترین اردو کا اخبار تھا جس میں حبیب جالب کا یہ کلام بھی چھپ جاتا تھا 
بیس روپے من آٹا‘ اس پر بھی ہے سناٹا
مجید نظامی بغیر کسی شک و شبہ کے ایک سچے پاکستانی‘ کھرے انسان اور نڈر صحافی تھے۔ نتائج سے بے نیاز جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے میں وہ ایک سرور اور فخر محسوس کرتے تھے۔ حاکموں کی ہاں میں ہاں ملانے اور ہوا کے رخ کے ساتھ چلنے والے زیرعتاب لوگوں کے ہجوم سے گردن باہر نکال کر حق کی بات صرف وہ باکردار اور بااصول لوگ ہی کہہ سکتے ہیں جن کے اپنے دامن صاف ہوں۔ مجیدنظامی مرحوم ان چند قابل فخر صحافیوں میں سے تھے جنہوں نے جناب حمید نظامی سے حق کا پرچم پکڑا اور پھر ہر سیاسی و غیر سیاسی آمر کے سامنے اس کو بے خوفی سے اونچا کیا۔ ایسے لوگ صدیوں میں قوموں کو نصیب ہوتے ہیں۔  جب میں پاکستان آرڈیننس فیکٹریز کا چیئرمین تھا تو مجیدنظامی صاحب نے مجھے لاہور آکر ایوان نوائے وقت میں پاکستان کی دفاعی پیداوار کی صلاحیتوں پر روشنی ڈالنے کی دعوت دی تھی۔ مجھے بتایا گیا کہ مجیدنظامی صاحب مہمان کا تعارف کروا کر کچھ دیر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسری اہم مصروفیات کی بدلت اپنے دفتر واپس چلے جاتے ہیں۔ میں نے جب واہ فیکٹریز کی عالی شان پیداواری صلاحیتوں‘ دستکاروں کی انتھک محنتوں اور پاکستان کے بنے ہوئے اسلحے کی جنوب ایشیا‘ مشرق وسطیٰ اور حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ تک درآمدات کا ذکر کیا تو مجید نظامی صاحب کا چہرہ کھل گیا اور وہ پورے دو گھنٹے میری معروضات خوشی اور انہماک سے سنتے رہے۔ ان کے چہرے پر خوشگوار حیرانگی اور مسرت کے آثار دیکھ کر میں نے نظامی صاحب کو واہ چھائونی میں اسلحے کے کارخانے آکر خود دیکھنے کی دعوت دیدی جو انہوں نے قبول کر لی۔مفصل دورے کے بعد میں نے نظامی صاحب کو واہ فیکٹریز میں بنی ہوئی بندوق اور توپوں کی گولیوں سے تیار کردہ ایک ٹیبل لیمپ تحفے کے طورپر پیش کیا جو انہوں نے خوشی سے قبول کیا۔ اس کی تصویر آج بھی نظامی صاحب کے دفتر میں لگی ہوئی ہے۔ میں نے عرض کی کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے۔ ہمارا اسلحہ دفاعی نوعیت کا ہے۔ جنگ سے بچنے اور امن کی روشنیاں بکھیرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جنگ کیلئے ہر وقت تیار رہا جائے۔ کمزور اور نہتے لوگوں اور قوموں کا حشر وہی ہوتا ہے جو کشمیریوں اور فلسطینیوں کا ہو رہا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ ٹیبل لیمپ پر نصب Bullets ہماری دفاعی تیاری اور اس کی روشنی ہماری امن کی خواہش کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس کے بعد جب میں فوج سے سبکدوش ہوکر سٹیل ملز کا چیئرمین بنا تو بھی مجید نظامی صاحب کی قیادت میں نوائے وقت نے سٹیل ملز کے کمرشل معاملات کو اپنے اخبار میں موزوں جگہ دی۔ سٹیل ملز سے فراغت کے بعد 2007ء  کے وسط میں جب میں نے قومی معاملات پر لکھنا شروع کیا تو مجید نظامی صاحب نے مجھے فوراً نوائے وقت میں لکھنے کی دعوت دی اور راولپنڈی نوائے وقت کے انچارج جاوید صدیق کو ہدایت دی کہ راقم کا کالم راولپنڈی سے نہیں بلکہ لاہور سے اخبار کے ادارتی صفحے پر سرفہرست چھپا کرے گا۔ جولائی 2007ء میں پہلا کالم ’’لال مسجد آپریشن مضمرات‘‘ کے عنوان سے چھپا اور پھر نوائے وقت  میں ہفتہ وار کالم  چھپا جس کو نیویارک اردو ٹائمز سمیت امریکہ ‘ برطانیہ‘ کینیڈا اور مشرق وسطیٰ کے بہت سارے اردو اخبارات بشکریہ نوائے وقت چھاپتے رہے۔ اس کے بعد مجید نظامی صاحب نے نہ صرف مجھے اپنے نظریہ پاکستان فورم اسلام آباد کا صدر بلکہ اپنی نظریہ پاکستان کی مرکزی کونسل کا ممبر بھی منتخب کیا جو میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں مجھے نظریہ پاکستان فورم کا صدر بنانے کیلئے ایک ضیافت کا باقاعدہ انتظام کیا گیا۔ تقریب میں میری آمد پر نظامی صاحب نے مجھے سلیوٹ کیا اور کہا کہ اس دن کے مہمان خصوصی وہ نہیں بلکہ راقم ہے۔ یہ نظامی صاحب کی عظمت اور بڑا پن تھا کہ مجھ جیسے ایک اوسط درجے کے عاجز انسان کو اتنے عظم انسان نے اتنی پذیرائی بخشی۔ قارئین! مجید نظامی آج ہم میں نہیں‘ لیکن وطنیت‘ اسلامیت اور جمہوریت کا درس پوری قوم کو جس دردمندی سے انہوں نے دیا ہے‘ وہ ہمارے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔ نظامی صاحب ایک فرد نہیں بلکہ ایک ادارہ تھے۔ میں نے جب ان کو ملنا چاہا تو انہوں نے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ چھوٹا سا گھر‘ تنگ سی گلیوں‘ عام سائز کا ڈرائینگ روم جس میں پرانی طرز کا ایک ڈارک برائون رنگ کا صوفہ‘ لیکن گھرکے عظیم الشان جاہ و جلال کی اصل وجہ مجید نظامی صاحب کی وطنیت کے جذبے سے سرشار وہ قدآور شخصیت تھی جس کی زبان سے حب الوطنی کے جذبے سے لبریز وہ انمول خیالات اور دانش ٹپکتی تھی کہ دل کرتا تھا وہ سنتے ہی رہیں۔ ایک دفعہ جب میں دفتر میں ملنے گیا تو وہیں میں یہ سوچتے ہوئے کہ نظامی صاحب کا دفتری وقت ضائع نہ ہونے پائے میں نے ان کی چائے یا کافی پینے کی پیشکش سے مودبانہ معذرت کی تو کہنے لگے جنرل صاحب آپ کے بہانے ہم بھی چائے پی لیں گے اور فوراً چائے منگوا لی۔ نظامی صاحب ایک دو دفعہ میری اسلام آباد والی رہائش گاہ پر بھی تشریف لائے حالانکہ دل کے تین آپریشن ہونے کے بعد وہ بہت کم کسی کے پاس جاتے تھے۔قارئین! مجید نظامی صاحب کی رخصتی کے بعد پیدا ہونے والا خلا تو پورا نہیں ہو سکتا‘ لیکن ان کے نظریات کے پرچار کو اپنا کر ہم اْن کے مشن کی تکمیل کیلئے سردھڑ کی بازی لگا سکتے ہیں۔ 27 رمضان کو قرآن کا نزول ہوا۔ 27رمضان کو پاکستان وجود میں آیا اور 27 رمضان کو پاکستان کا شیدائی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔ اس سے بڑی سعادت ایک مسلمان کیلئے کیا ہو سکتی ہے۔ 
اک دیا اور بجھا اور بڑھی تاریکی
شب کی سنگین سیاہی کو مبارک کہہ دو

ای پیپر دی نیشن