صحافتی اقدار کا پاسبان

Apr 18, 2023

جی این بھٹ

صحافتی اقدار کا پاسبان
جی این بھٹ 
معمار صحافت کی ساری زندگی قلم کی حْرمت اور اخبار کی عزت کی جنگ لڑتے بسر ہوئی۔ جوانی میں انہوں نے اپنے بڑے بھائی حمید نظامی بانی نوائے وقت کے جبر کے ماحول میں اچانک انتقال کے بعد لندن سے واپس آ کر نوائے وقت کی ادارت سنبھالی۔ یہ کوئی آسان دور نہیں تھا۔ مارشل لائ￿  کا جبر اور قہر اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کے لیے پوری شدت سے کام کر رہا تھا۔ اس دور میں صحافت کے بڑے بڑے نامور لوگ مارشل کے جبر و قہر کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے تھے۔ ایسے میں اپنے بڑے بھائی کی ناگہانی جوانمرگی کا صدمہ اْٹھائے جب مجید نظامی نے اس صحافت کا بار اْٹھایا تو بقول غالب 
جس کو ہو جان و دل عزیز 
اس کی گلی میں جائے کیوں 
والے حالات کا سامنا تھا۔ مگر مجید نظامی ایک شمشیر برہنہ کی طرح حق و صداقت کی جنگ لڑنے میدان عمل میں کود پڑے۔ یہ وقت کٹھن تھا ایک نوجوان کے لیے یہ وقت اس لیے بھی سخت تھا کہ اس کے کاندھوں پر اس اخبار کو چلانے کی بھاری ذمہ داری تھی جس کی اشاعت کا حکم خود بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے دیا تھا۔ 
دنیا نے دیکھا کہ ایک نوجوان صحافی نے کس طرح مشکلات میں گھرے، حکومتی پابندیوں میں جکڑے ماحول میں اس اخبار کو حق و صداقت کا نشان بنا دیا۔ مجید نظامی کے اندر ایک بیدار مغز صحافی انہیں ہر پل بے چین رکھتا، وہ اخبار کی پالیسی اور ہر خبر کی سچائی کو مدنظر رکھتے۔ کوئی تعلق ،کوئی دوستی ،کوئی دشمنی ان کو راہ راست سے ہٹا نہیں سکتی تھی۔ بطور صحافی ان کا سب سے بڑا کمال ان کی اداریہ نویسی کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ جب وہ کسی موضوع پر اداریہ لکھتے تو یوں لگتا تاریخ جغرافیہ اور حقائق ہاتھ باندھے ان کے سامنے کھڑے ہیں اور وہ پوری ایمانداری سے اپنے موضوع کے ساتھ انصاف کرتے تھے۔ معمولی سے معمولی بات ان کی عقابی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں رہتی تھی۔ وہ موضوع کی تمام جزیات کو موضوع بحث بناتے اور نہایت ایمانداری سے اس کا تجزیہ ان حالات سے کرتے اور اس کے بعد قانون، آئین اور نظریہ پاکستان کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر کوئی رائے دیتے۔ اس طرح ان کی رائے بھرپور اور جامع ہوتی جو پڑھنے والوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی۔ یوں رائے عامہ کی بیداری اور اظہار رائے کی بیداری میں ان کا قلم ہمیشہ رواں رہا۔ وہ سچ میں جھوٹ کی ملاوٹ کو صحافتی اقدار کے لیے زہر قاتل سمجھتے تھے۔ 
انہوں نے ابتدا ہی سے نوائے وقت کے لیے کچھ رہنما اصول مقرر کر لیے تھے اور ان پر سختی سے خود بھی عمل کرتے اور اپنے ادارے میں کام کرنے والوں کو بھی ان پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ نوائے وقت میں آج تک اداریے سے لے کر خبر تک ،فیچر سے لے کر تصویر تک جو اخلاقی اصول نظامی صاحب نے مقرر کیے تھے ان پر عمل کیا جاتا ہے۔ انہوں نے اخبار کو حقیقی صحافت کا نمائندہ اخبار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ جدید دور میں جب اخبارات اشتہارات کی بھیڑ چال میں کمرشل ہو گئے تب بھی نوائے وقت نے سنجیدگی کا دامن ہاتھ سے نہیںچھوڑا۔ نوائے وقت کے صفحات عوامی مسائل، خبروں، کالموں ، سماجی ثقافتی اور معاشرتی موضوع سے بھرے ہونے کے باوجود اشتہارات اور خواتین کی نمائش اور تصویری بھرمار سے دور رہا۔ جھوٹی اور سنسنی خیز چھوٹی خبروں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش نہ پہلے کی گئی نہ اب ہوتی ہے۔ یہ نوائے وقت کا اعزاز ہے کہ اس کی خبر آج بھی حقائق کے قریب ترین ہوتی ہے۔ لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ یہ کوئی کمرشل پرچہ نہیں ایک جدوجہد اور نظریہ کا ترجمان تھا، ہے اور رہے گا۔ مارشل لائ￿  ہو یا جمہوری نظام حکومت ہر حکومت کے ساتھ نوائے وقت نے حق و صداقت کو مدنظر رکھتے ہوئے ملکی آئین قانون اور عوام کے حقوق کی جنگ لڑی جہاں کسی حکمران نے آئین قانون عوام اور ملک کے نظریہ سے سر مو بھی انحراف کیا مجید نظامی نے نفع و نقصان سے ہٹ کر اس کی خبر لی۔ یہی پالیسی آج بھی جاری ہے۔ مجید نظامی 50 برس سے زیادہ میدان صحافت کے شہسوار ہیںرہے اس دوران انہیں کسی بھی معرکہ میں شکست یا ندامت کا سامنا کرنا نہیں پڑا۔ مراعات و تعلقات کبھی انہیں خرید نہ سکے۔ لبھا نہیں سکے وہ بقول اقبال 
ہزار خوف ہوں لیکن زباں ہو دل کی رفیق 
یہی ازل سے رہا ہے، قلندروں کا طریق 
کی عملی تصویر تھے۔ انہوں نے جبر برداشت کیا۔ نقصان برداشت کیا مگر ملک و قوم اور آئین و قانون سے تجاوز کو قبول نہیں کیا وہ بانیان پاکستان، نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان اور مسئلہ کشمیر کے محافظ تھے ان کا قلم اور ان کا اخبار ان کے حوالے سے کسی بھی ذہنی زبانی یا قلمی خناس کا منہ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا تھا۔ اس میدان میں انہوں نے بڑے بڑے شوریدہ سروں کی شوریدگی نکالنے میں ہمیشہ کامیابی حاصل کی۔ بلاشبہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال، محترمہ فاطمہ جناح کے حقیقی جانثاروں میں سے ایک تھے۔ ان کا قلم و اخبار ان کے خلاف دانستہ یا نادانستہ طور پر اٹھنے والی ہر آواز کو سازش کو پنپنے سے پہلے ہی ان کے خفیہ مراکز میں دفن کر دیا۔ عوام کی آواز ان کے مسائل کو حکمرانوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔ آج ان کی وفات کے بعد یہی کام ان کی دختر نیک اختر رمیزہ نظامی نہایت احسن طریقہ سے انجام دے رہی ہیں۔ دعا ہے اللہ کریم انہیں اپنے عظیم والد کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ اپنے والد کی طرح …
لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں 
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے 
عزیمت کی راہ پر ڈٹی رہیں اور نوائے وقت یونہی ملک و قوم کی خدمت کرتا رہے۔

مزیدخبریں