مجید نظامی جرا?تِ کردار کی علامت

Apr 18, 2023

حسن جلیل

مجید نظامی جرا?تِ کردار کی علامت 
مجید نظامی بغیر کسی شک کے ایک سچے پاکستانی‘ کھرے انسان اور نڈر صحافی تھے۔ نتائج سے بے نیاز جابر حاکم کے سامنے کلمہ حق کہنے میں ذرہ برابر بھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ حق کی بات صرف وہ باکردار اور بااصول ہی کہہ سکتا ہے جس کا اپنا دامن صاف ہو۔ مجیدنظامی مرحوم نے جناب حمید نظامی سے حق کا پرچم تھاما اور پھر ہر سیاسی و غیر سیاسی بالخصوص پاکستان پر مسلط ہونیوالے ا?مروں کے سامنے اس کو بے خوفی سے اونچا کیا۔ امام صحافت کا لقب پانے والے مجید نظامی مرحوم ایک منفرد نوعیت کے صحافی تھے جنہوں نے ہمیشہ اسلام‘ جمہوریت اور ملکی مفادات کو مقدم رکھا۔

1965ئ￿  کے صدارتی انتخابات میں جناب مجید نظامی نے ہرقسم کے سود وزیاں کو پس پشت ڈال کر مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا بھرپور ساتھ دیا۔ جناب مجید نظامی نے نوائے وقت میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کر کے انتہائی پامردی کے ساتھ جمہوری قوتوں کی جدوجہد کو تقویت دی اور عام ا?دمی تک مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خیالات کو تفصیل سے پہنچا کر لوگوں میں ا?مریت کیخلاف لب کشائی کرنے کی ہمت پیدا کی۔ پورے ملک میں صرف ایک جناب مجید نظامی ہی تھے جنہوں نے پاکستان سے جمہوریت کی صف لپیٹنے والے ا?مر جنرل ایوب خان کے مقابلے میں جمہوریت کی بحالی‘ پارلیمانی نظام کے احیائ￿  اور شہری ا?زادیوں کی بازیابی کیلئے مادرِ ملت کی خاطر اپنے ا?پ اور نوائے وقت کو وقف کر دیا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر جناب مجید نظامی کی زیرِ ادارت نواے وقت پوری شدومد کے ساتھ مادرِملت کی حمایت میں سرگرم عمل نہ ہوتا تو دیگر اخبارات بھی نوائے وقت کی دیکھا دیکھی مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے بیانات اور تصاویر کو چاہے یہ بادلِ نخواستہ ہی سہی‘ چھاپنے پر مجبور نہ ہوتے اور پھر ایسے ماحول میں شایدپاکستان میں وہ فیصلہ بھی نہ ہو پاتا کہ کیا عورت سربراہ مملکت یا چیف ایگزیکٹو بن سکتی ہے۔ جناب مجید نظامی کی ہدایت پر نوائے وقت میں صفحہ اول پر پیشانی کے ساتھ ایک ذیلی کالم میں امیرجماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک بیان شائع ہوا جس کی شہ سرخی تھی ’’عورت سربراہ مملکت ہو سکتی ہے‘‘۔ جناب مجید نظامی کی خصوصی توجہ سے نوائے وقت میں اس تفصیلی بیان نے جہاں وقت کے ا?مروں کی طرف سے لوگوں کو مذہب کے نام پر گمراہ کرنے کی سازشیں ناکام ہوئیں وہاں ملک میں ا?ئندہ کیلئے عورت کے سربراہ مملکت اور چیف ایگزیکٹو بننے کا راستہ قطعی طور پر صاف ہو گیا۔ ان دنوں نوائے وقت نے محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے پہلے انکے مقام و مرتبہ کے تقاضوں کی روشنی میں ’’مادرِ ملت‘‘ لکھنا شروع کیا۔ یہ خطاب بانی پاکستان کی ہمشیرہ کو نوائے وقت ہی کی طرف سے دیا گیا اور انتخابات کے حوالے سے چلنے والی مہم کے دوران حکومت نے اخبارات کو باقاعدہ پریس ایڈوائس جاری کی کہ محترمہ فاطمہ جناح کے نام سے قبل ’’مادرِ ملت‘‘ نہ لکھا جائے مگر جناب مجید نظامی نے ایسی کسی ایڈوائس کو اہمیت نہ دی۔ نوائے وقت نے اپنے اداریوں‘ خبروں‘ کالموں میں مادرِ ملت کے انتخابی نشان لالٹین کے حوالے سے مضامین لکھ کر ملک میں ا?مریت کے خلاف نفرت کی فضا کو پروان چڑھایا۔ اس صورتحال نے اقتدار کے ایوانوں کو لرزہ براندام کئے رکھا۔ جناب مجید نظامی نے جنرل ایوب خان کے علاوہ وقت کے دوسرے ا?مروں کو بھگتایا وہ ہر ا?مر کی ا?نکھوں میں ا?نکھیں ڈال کر حق و صداقت کی بات کی۔ اْنہوں نے ا?مریت کو جمہوریت اور نظریہ پاکستان کیلئے ہمیشہ زہر قاتل سمجھ کر اسکی مخالفت کی۔

انکی ساری زندگی ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے ،انکی بے باکی اور بہادری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نائن الیون کے بعد جنرل مشرف نے سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کو ایک میٹنگ میںبتایا کہ افغان پالیسی میں تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے اگر ہم نے افغان پالیسی نہ بدلی تو امریکہ کشمیر کی تحریک ا?زادی کو دہشت گردی قراردے دیگا جس پرجناب نظامی نے مکا لہراتے ہوئے کہا‘ جنرل صاحب!اگرا?پ نے کشمیر سے غداری کی تو اس کرسی پر قائم نہیں رہ سکیں گے۔ ایک بار گورنر ہاوس لاہور میں ملاقات کے بعد الوداع کرتے ہوئے جنرل ضیا نے مجید نظامی سے کہا‘ ’’ذرا پاکستان کے مفاد کا خیال رکھیے گا۔‘‘ جس پر مجید نظامی نے برجستہ اور طنزیہ جواب دیا ’’اب پاکستان کا مفاد ا?پ مجھے سکھائیں گے؟‘‘ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھنے والے ا?مروں کو مجید نظامی ہی اس طرح للکار سکتے تھے۔بھارت کے دورے پر جاتے ہوئے ضیائ￿  الحق نے شرارتاً نظامی صاحب کو ساتھ چلنے کی دعوت دی تو نظامی نے برجستہ جواب دیا ’’اگر ٹینک پر بیٹھ کر جارہے ہو تو میں چلنے کو تیار ہوں‘‘۔ 

بحیثیت ایڈیٹر مجید نظامی نے روزنامہ نوائے وقت کو نظریہ پاکستان کی ایک بہترین پالیسی دی جس پر یہ ادارہ ا?ج تک کاربند ہے اور اسی وجہ سے ملک کے محب وطن اور سنجیدہ طبقوں میں ہمیشہ ہی سے مقبول ترین اخبار رہا ہے۔ جناب مجید نظامی نے صحافت کو ایک پیشہ نہیںبلکہ ایک مشن سمجھا اور ساری زندگی انتہائی دیانتداری، خوداری، بہادری اور بے پناہ محنت شاقہ کے ساتھ اس مشن کو جاری رکھا، وہ شعبہ صحافت کے تمام اسرار و رموز سے بخوبی واقف تھے۔ا?ج انکی ا?ٹھویں برسی منائی جارہی ہے۔ 27 رمضان المبارک 2014ئ￿  کو مجید نظامی نے اس باسعادت رات کی طلوع فجر سے قبل کی ساعتوں میں داعی اجل کو لبیک کہا۔ بلاشبہ رمضان المبارک کی ایسی مبارک ساعتوں میں موت بھی خوش بختوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ اللہ انہیں اپنی جوارِ رحمت میں جگہ دے۔

مزیدخبریں