اسرائیلی مظالم کا سلسلہ تاحال جاری ہے اوراسرائیل نے عالمی میڈیا کے دفاتر جس عمارت میں قائم تھے اسے بھی میزائل سے تباہ کردیاتھا تاکہ اس کی فرعونیت دنیا پر آشکار نہ ہو۔فلسطینیوں پر مظالم پر دنیائے اسلام مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے اور اس سلسلے میں او آئی سی کا اجلاس بھی منافقت اور دکھاوے کے سوا کچھ نہیں۔ اسی طرح 43 ممالک کی اسلامی فوج تو میرا خیال ہے جھولیاں پھیلا کر اسرائیل کو بددعائیں دینے کے لئے تشکیل دی گئی ہے۔مسلمانوں کی (امن پسندی) بزدلی سے کفار اچھی طرح واقف ہیں اسی لئے انہوں نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا ہے اور اقوام متحدہ امریکہ کے لے پالک بچے کی مانند ہے جسے امریکہ اپنی مرضی سے استعمال کرتا ہے اور ویسے بھی ’’ویٹو پاور‘‘ کا طریقہ کار اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان چند ممالک کی مرضی کے علاوہ دنیا میں کسی مظلوم کے حق میں قرارداد تک پاس نہیں ہوسکتی۔ یہ الگ بات ہے کہ قرارداد پاس ہونے کے بعد بھی کیا ہوگا؟ جب مسلم حکمران ہی بے حِس ہو چکے ہوں۔
فلسطینی مظلوم عوام کسی غیرت مند‘ بہادر اور جذبہ جہاد سے سرشار اسلامی لیڈر کی منتظر ہے جو انہیں اسرائیلی مظالم سے نجات دلاسکے لیکن صورتحال یہ ہے کہ اسلامی ممالک کے اکثر حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے امریکہ سمیت یورپی ممالک کی منشاء کے خلاف کوئی کام کیا تو وہ انہیں اقتدار سے ہٹادیں گے یعنی کہ ان کی نظر میں نعوذبااللّہ اقتدار اعلیٰ امریکہ کے پاس ہے اور وہ ہی اپنی مرضی سے اسلامی ممالک میں حکمرانوں کو مناصب عطا کرتا ہے اور اگر امریکہ کو ناراض کردیا گیا اور اسرائیل کے خلاف کو ئی سخت الفاظ کہہ دیئے تو اقتدار سے محروم ہونا پڑے گا تو ایسی صورت میں عام مسلمانوں کی جانب سے ایسے حکمرانوں سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی اُمید لگا لینا بیوقوفی ہے جو اسرائیل کے خلاف بیان دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔دولت مند اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا اقتدار امریکہ کی تمام باتیں مان لینے اور مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے کے بعد بھی محفوظ نہیں اور امریکہ ایک ایک کرکے ان ممالک میں نہ صرف اقتدار میں تبدیلی لارہا ہے بلکہ مختلف حیلوں بہانوں سے خانہ جنگی پیدا کرکے انہیں مکمل تباہ و برباد کررہا ہے اور ان کے تمام وسائل پر قابض ہوتا چلا جارہا ہے۔
اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی دولت کا زیادہ حصہ امریکہ و یورپ میں بڑی بڑی کمپنیوں اور کاروبار کی شکل میں موجود ہے اور ان حکمرانوں کے معاشی مفادات بھی امریکہ و یورپ ہی سے جْڑے ہیں۔ اس لئے بھی وہ ان ممالک کی مرضی کے خلاف کو ئی با ت کرنے کو قطعی تیار نہیں۔دولت مند اسلامی ممالک فلسطینیوں کی اس قدر مدد کرتے ہیں کہ انہیں اپنے ممالک میں رہائش و ملازمت دیکر اسرائیلی مظالم سے نجات دلا دیتے ہیں یعنی نہ تو فلسطینی وہاں ہوں گے ا ور نہ ہی اسرائیلی مظالم کا نشانہ بنیں گے۔ اسی طرز عمل کے باعث اسرائیل مسلسل اپنی حدود میں توسیع کرتا چلا جارہا ہے اور فلسطینی عوام کو اسرائیلی مظالم سے اللہ کے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔
مسلم حکمران اب بھی ہوش کے ناخن لیں اور مرحلہ وار اپنی دولت اور سرمایہ امریکہ و یورپ سے نکا ل کر باصلاحیت اور قدرتی وسائل سے مالا مال غریب اسلامی ممالک میں خرچ کریں جہاں ان کا سرمایہ بھی محفوظ ہوگا اور مسلمانوں کو اس دولت سے طاقت حاصل ہوگی اور چند سالوں میں یہ غریب مسلم ممالک معاشی استحکام حاصل کرلیں گے جس سے مستقبل میں امریکہ و یورپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جاسکے گی۔ فی الحال تو حالت یہ ہے کہ دولت مند اسلامی ممالک کے حکمران اپنے اقتدار و سرمائے کو بچانے کے لئے امریکہ و یورپ کے مرہون منت ہیں تو غریب اسلامی ممالک امریکہ و یورپ کے مقروض ہونے کی وجہ سے خاموشی رہنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ صورتحال میں زیادہ ذمہ داری تو دولت مند اسلامی ممالک پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کریں اور مرحلہ وار اپنی سرمایہ کاری و دولت کی منتقلی امریکہ و یورپ کے بجائے غریب اسلامی ممالک کی جانب موڑ دیں تاکہ یہ غریب اسلامی ممالک یورپ و امریکہ کا قرض ختم کرلیں تو یہی ممالک مستقبل میں دنیا بھر میں اسلام کی موثر ترین آواز ثابت ہوسکتے ہیں۔
اسلامی سربراہی کانفرنس میں اس معاملے پر موثر حکمت عملی ترتیب دی جانی چاہئے کہ اقوام متحدہ کا کردار اگر مظلوم مسلمانوں کے لئے اسی طرح کا رہتا ہے تو تمام اسلامی ممالک اقوام متحدہ کو ایک ساتھ خیرباد کہہ دیں کیونکہ اقوام متحدہ کے قیام سے لیکر اب تک یہی ہوا ہے کہ جہاں غیر مسلموں کو مسلمانوں سے آزادی درکار ہے وہاں راتوں رات متفقہ قرارداد منظور کراکے چند دنوں میں اس پر مکمل عملدرآمد کرایا جاتا ہے جیسا کہ مشرقی تیمور میں کیا گیا لیکن کشمیر پر اقوام متحدہ کی قرارداد عملدآمد کی منتظر ہے اور جہاں مسلمانوں کو غیر مسلموں کے مظالم سے چھٹکارا اور آزادی درکار ہوتی ہے وہاں اقوام متحدہ کا کردار ایسا ہوتا ہے جیسے یہ ادارہ موجود تک نہ ہو۔اس طرز عمل کے باوجود اقوام متحدہ میں مزید شریک رہنا مسلم ممالک کے لئے فائدے کے بجائے نقصان کا سبب بنتا رہے گا۔
گزشتہ روز اسرائیل نے شام میں ایرانی سفارت خانے پر بمباری کرکے کئی ایرانی اہلکاروں کو شہید کردیا تھا جس کے جواب میں ایران نے بھی اسرائیل پر ڈرون میزائلوں کے حملے کئے اور ایران کا دعوٰی ہے کہ انہوں نے اپنے اہداف کامیابی سے حاصل کئے جبکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ ایرانی میزائلوں کو راستے میں ہی ناکارہ بنادیا تھا۔ بہرحال صورتحال گھمبیر ترہوتی چلی جارہی ہے اور اسرائیل کی جانب سے مسلسل جارحانہ طرز عمل پر یورپ اور امریکہ میں بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہے لیکن مسلم حکمران خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ وہاں کی عیسائی آبادی بھی شدید متاثر ہے اور اس وقت مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں نے بھی اسرائیل کی مذمت کا آغاز کیا ہوا ہے لیکن یہودی لابی امریکہ سمیت یورپی ممالک کے اقتدار کے ایوانوں پر غالب ہے اسی لئے نیتن یاہو بے لگام ہوکر مظالم میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔سب سے زیادہ مجرمانہ رویہ مسلم حکمرانوں کا ہے جنہوں نے مسلم ممالک کو دسترخوان پر سجے کھانے کی مانند بناکر رکھ دیا ہے اور امریکہ و مغربی ممالک جب چاہیں جس کھانے کو تناول کرلیں‘ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر کوئی بھی مسلم حکمران یہ سمجھ کر خاموش ہے کہ اس طرح کرنے سے ان کا اقتدار اور ملک محفوظ ہوجائے تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ جلد یا بدیر ایک ایک کرکے تمام مسلمان ممالک پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے امریکی منصوبہ بندی جاری ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور مسلم امہ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اجتماعی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے۔
٭…٭…٭