ٹرافی ہنٹنگ: مارخور سے ہاتھی تک 

ماخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ آج کی نوجوان نسل کی اکثریت نے مارخور کو فلموں ڈاکو منٹریز یا پھر چڑیا گھر میں دیکھا ہے۔ یہ پالتو جانور نہیں۔ شمالی علاقہ جات کے پہاڑی جنگلات میں پایا جاتا ہے۔ یہ سانپ کو کھا جاتا ہے۔ اس کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔ حکومت اس کی بقا کے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔ ایک طرف مارخور کی نسل نایاب ہو رہی ہے دوسری طرف اس کے شکار کی بھی اجازت دی گئی ہے۔ چندماہ قبل مارخور کے شکار کے لائسنس کی آج تک کی سب سے بڑی بولی لگی۔ یہ امر تعجب خیز ہے کہ ایک طرف مارخور کی نسل کا تحفظ کیا جارہا ہے دوسری طرف اس کا شکار ہوتا ہے۔ کیا بہت پیسہ ملتا ہے کہ نسل پر کمپرومائز کر لیا جاتا ہے؟۔
آج تک کا مہنگا ترین لائسنس امریکی ہنٹر ڈیرن جیمز مل مین نے دو لاکھ 32ہزار ڈالر میں حاصل کیا تھا۔ پاکستانی کرنسی میں یہ ساڑھے 6کروڑ روپے بنتے ہیں۔ جو مارخور شکار کیا گیا اس کی عمر نو سال چھ ماہ تھی۔ مارخور کے سینگوں کا سائز45انچ تھا۔ سینگ اور مارخور کی کھال شکاری بڑے فخر اور اہتمام سے اپنے ڈرائنگ رومز میں سجاتے ہیں۔ جس موقع پر جیمز مل مین نے لائسنس حاصل کیا اس دوران تین مزید لائسنس بھی جاری ہوئے تھے۔ پاکستان میں ہر سال مختلف دورانیے میں 12لائسنس جاری ہوتے ہیں۔ جیمز مل نے چترال میں سیزن کا پہلا شکار کیا۔ہم نے آپ کے سامنے سوال رکھا تھا کہ ایک طرف مارخور نایاب ہو رہا ہے دوسری طرف اس کے شکار کی اجازت کا کیا مطلب؟ جی بالکل یہ غلط نہیں ہے۔ لائسنس خریدنے والا آزاد نہیں ہو جاتا کہ جہاں چاہے جائے شکار تلاش کر کے پھڑکا دے۔ محکمہ جنگلی حیات والے بوڑھے مارخور کو پکڑ کر شکاری کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ اس کی رسی کھول دی جاتی ہے۔ عمرِ پیری کو پہنچے مارخور میں ہمت ہو تو وہ بھاگ جائے۔ کتنا بھاگے گا۔شکار کے نشانے پر اس نے آنا ہی ہوتا ہے۔ ایسے مارخورٹرافی ہنٹنگ میں استعمال ہوں تو کوئی حرج ہی کیا ہے۔
اب ہاتھیوں کی ٹرافی ہنٹنگ کی دلچسپ کہانی سامنے آئی ہے۔ جو کئی تنازعات ، تلخیاں اور دلچسپیاں لئے ہوئے ہے۔ کہانی جنوبی افریقہ کے26ستائیس لاکھ کی آبادی کے ملک بوٹسوانا سے شروع ہوئی جو برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی سے ہوتی ہوئی امریکہ جا پہنچی ہے۔
بوٹسوانا میں ہاتھیوں کی بہتات ہو گئی۔ حکومت کی جانب سے ٹرافی ہنٹنگ ہو رہی تھی۔ ٹرافی ہنٹنگ بوٹسوانا حکومت کا ایک بڑا ذریعہ آمدن ہے۔ برطانیہ، جرمنی اور آسٹریلیا کی طرف سے ہاتھیوں کے شکار کے خلاف نہ صرف آواز اٹھائی جا رہی ہے بلکہ قانون سازی بھی ہورہی ہے۔ چند ماہ قبل جرمنی کی وزارت ماحولیات نے ٹرافی ہنٹنگ پر پابندی کی تجویز پیش کی تو بوٹسوانا کے صدر کویٹسی ماسیسی تلملا اٹھے انہوں نے جرمن میڈیا کو انٹرویو میں کہا کہ اس اقدام سے ان کے ملک کے لوگ زبوں حال ہو جائیں گے۔ صدر صاحب نے انٹر ویو میں یہ دھمکی بھی دیدی کہ 20ہزار ہاتھی جرمنی میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ ماسیسی شاید جرمنوں کے اعصاب آزمانا چاہتے تھے کہ ان کو سنبھال کر دکھائیں۔ برطانیہ میں جب پابندی حق میں قانون سازوں نے ووٹ دیا تو بوٹسوانا کے جنگلی حیات کے وزیر ڈومینروینی میتھم کھولو نے دس ہزار ہاتھی ہائیڈپارک میں لے جاکر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی تاکہ انگریز ہاتھیوں کے ساتھ رہنے کا مزا چکھ سکیں۔ صدر موکویٹسی ماسیسی کہتے ہیں کہ ہاتھیوں کی تعداد تحفظ کی کوششوں کے نتیجے میں بہت زیادہ بڑھ گئی تھی مگر ان کے شکار کی وجہ سے ان کی حد سے زیادہ بڑھتی تعداد کو قابو میں لانے میں مدد ملی۔بوٹسوانا میں دنیا کی ہاتھیوں کی آبادی کا تقریباً ایک تہائی موجود ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بوسٹوانا میں 130,000 سے زیادہ ہاتھی موجود ہیں۔
صدر ماسیسی کے بقول  ہاتھیوں کے ریوڑ املاک کو نقصان پہنچا رہے تھے، فصلیں کھا رہے تھے اور رہائشیوں کو روند رہے تھے۔بوٹسوانا اس سے قبل ہمسایہ ملک انگولا کو 8,000 ہاتھی دے چکا ہے، اور موزمبیق کو ان کی آبادی میں کمی کے بعد مزید سینکڑوں ہاتھیوں کی پیشکش کر چکا ہے۔بوٹسوانا اور دیگر جنوبی افریقی ممالک امیر مغربی باشندوں سے بہت پیسہ کماتے ہیں جو جانوروں کے شکار یا ٹرافی ہنٹنگ کے اجازت نامے یا لائسنس کے لیے ہزاروں ڈالر ادا کرتے ہیں اور پھر اس کا سر یا جلد ٹرافی کے طور پر اپنے ساتھ گھر لے جاتے ہیں۔جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ عمل ظالمانہ ہے اور اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔بوٹسوانا کے جنگلی حیات کے وزیر نے کہا کہ ’کچھ علاقوں میں، لوگوں سے زیادہ یہ ہاتھی ہیں۔ وہ اپنے راستے میں آنے والے بچوں کو مار رہے ہیں۔ وہ کسانوں کی فصلوں کو روندتے اور کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں کو قحط کا سامنا ہے۔ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل کی 2021 ء کی رپورٹ کے مطابق، جرمنی افریقی ہاتھیوں کی ٹرافیوں اور مجموعی طور پر شکار کی ٹرافیوں کا یورپی یونین کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔بوٹسوانا نے 2014ء میں اس مشق پر پابندی عائد کی تھی، لیکن مقامی کمیونٹیز کی جانب سے دباؤ کے بعد 2019ء میں پابندی ہٹا دی گئی تھی۔ملک اب سالانہ شکار کا کوٹہ جاری کرتا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ لائسنس یافتہ اور سختی سے کنٹرول شدہ ہے۔بر سبیل تذکرہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ افریقہ کے کئی ممالک میں شیر کی ٹرافی ہنٹنگ بھی ہوتی ہے۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن