پاکستان میں تعلیم کا شمار ان شعبوں میں ہوتا ہے جو مسلسل ہی نظر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اس شعبے کے نظر انداز ہونے کی وجہ ہی سے ہمارا معاشرہ بھی اس طرح ترقی نہیں کر پایا جیسے کہ کسی بھی ریاست کو مضبوط اور مستحکم بنانے کے لیے ایک معاشرے کو آگے بڑھنا چاہیے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ دنیا بھر میں تعلیم کے حوالے سے بنیاد یعنی پرائمری سطح پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی ہے تاکہ تعمیر کی اولین اینٹیں ٹھیک رکھ کر عمارت کو پائیدار بنانے کی ضمانت فراہم کی جاسکے، اور ہمارے ہاں سب سے کم توجہ اسی بنیاد پر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پرائمری کی سطح پر بچوں کی ذہنی نشوونما اس انداز میں نہیں ہوتی کہ انھیں آگے آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تیار کیا جائے۔ خرابی کا سلسلہ پرائمری سکول سے چلتا ہوا یونیورسٹی کی سطح تک جاتا ہے اور یوں ہم ایسے افراد کو اعلیٰ تعلیم کی اسناد دیدیتے ہیں جو اپنے مضامین کی مبادیات اور معاشرے میں اپنے کردار کی اہمیت سے بھی ناواقف ہوتے ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے گئے لیکن ان میں سے زیادہ تر اقدامات کے مطلوبہ نتائج اس لیے برآمد نہیں ہوسکے کہ جن افراد سے وہ نتائج حاصل کیے جانے تھے ان کی تعلیمی بنیاد بہت کمزور تھی۔ وفاق میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ادارے کو ختم کر کے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی بنیاد بھی اسی خیال کے پیش نظر رکھی گئی تھی کہ اس سے اعلیٰ تعلیم کے نظام کو بہتر بنایا جاسکے گا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی حد سے تک اس سے بہتری آئی بھی لیکن مجموعی طور پر جس مثبت تعلیمی ماحول کے پیدا ہونے کی توقع کی جارہی تھی اس کا ظہور ممکن نہیں ہو پایا۔ اٹھارھویں ترمیم کے خاتمے کے بعد جب تعلیمی معاملات کا اختیار صوبوں کو دیا گیا تو صوبائی سطح پر ایچ ای سیز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صوبائی ایچ ای سیز کو زیادہ باختیار بنایا جاتا تاکہ صوبوں کو تعلیمی اداروں کے مسائل کے حل کے لیے بار بار مرکز کی طرف نہ دیکھنا پڑتا لیکن ایسا ہو نہیں پایا یا ہونے نہیں دیا گیا اور آج بھی کئی معاملات جو صوبائی ایچ ای سیز کی سطح پر حل ہو جانے چاہئیں ان کا اختیار وفاقی ایچ ای سی کے پاس ہے جس کی وجہ سے مسائل کا حل التوا کا شکار ہو جاتا ہے۔
دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی صوبائی ایچ ای سی کو اسی خیال سے قائم کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے صوبے کے تعلیمی اداروں کے معاملات کو بہتر بنایا جائے گا اور ان کے مسائل بھی صوبائی سطح پر ہی حل کر لیے جائیں گے لیکن کئی بار ایسا ہوچکا ہے کہ پنجاب ایچ ای سی کو اپنے حق کے لیے باقاعدہ جدوجہد کرنا پڑی۔ جون 2022ء سے پنجاب ایچ ای سی کے معاملات میں بہتری اس طرح آنا شروع ہوئی کہ پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر کو اس ادارے کا سربراہ مقرر کردیا گیا۔ ڈاکٹر شاہد منیر صوبائی ایچ ای سی کے چیئرمین بننے سے پہلے جامعہ پنجاب کے کنٹرولر امتحانات اور جھنگ یونیورسٹی کے رئیس جامعہ رہ چکے تھے۔ علاوہ ازیں، یکے بعد دیگرے میانوالی یونیورسٹی اور سرگودھا یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا اضافی چارج بھی ان کے پاس رہا تھا اس لیے وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے مسائل سے پوری طرح واقف تھے بلکہ انھیں یہ اندازہ بھی تھا کہ صوبائی دارالحکومت سے فاصلے پر موجود چھوٹے شہروں میں تعلیمی اداروں کے کیا مسائل ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے کون کون ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
چیئرمین پنجاب ایچ ای سی بننے سے قبل مذکورہ چار جامعات میں اہم حیثیتوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ ڈاکٹر شاہد منیر قومی سطح کے کئی اہم پراجیکٹس کی سربراہی اور نگرانی بھی کرچکے تھے اور انھوں نے لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی قائمہ کمیٹی برائے انجینئرنگ و توانائی کے رکن کے طور پر بھی کام کیا تھا، لہٰذا وہ مسائل کو مختلف زاویوں سے جانچنے اور پرکھنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اسی صلاحیت نے چیئرمین پنجاب ایچ ای سی کی حیثیت میں ان کے کام میں نکھار پیدا کیا اور گزشتہ تقریباً دو برس کے عرصے میں انھوں نے پنجاب کی جامعات اور اعلیٰ تعلیم کے دیگر مراکز اور اداروں کے بہتر بنانے کے لیے انتھک محنت کی، اور ان کی یہ محنت اداروں کی بہتری کی صورت میں باقاعدہ طور پر دکھائی بھی دیتی ہے۔ انھی خدمات کے اعتراف میں انھیں رواں برس تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا۔
پنجاب ایچ ای سی کے سربراہ کی حیثیت میں ڈاکٹر شاہد منیر نے سب سے زیادہ توجہ اساتذہ کی تربیت پر دی۔ مختلف جامعات میں انتظامی حیثیت میں کام کرنے کی وجہ سے وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر تدریسی عملے کی ٹھیک سے تربیت کی جائے تو تعلیمی اداروں کے معاملات میں بہتری کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اسی خیال کے ساتھ انھوں نے بیرونِ ممالک پوسٹ ڈاکٹریٹ اور کانفرنسوں وغیرہ میں شرکت کی غرض سے تدریسی عملے کے جانے کے لیے راہ ہموار کی اور اس سلسلے میں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ فنڈز مختص کیے۔ ڈاکٹر شاہد منیر کی پنجاب کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے لیے خدمات یقینا لائق تعریف ہیں لیکن اس سطح کے صرف ایک آدمی کی کاوشوں سے پورے ملک کے اداروں کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا اس لیے ہمیں ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن کے نتیجے میں ڈاکٹر شاہد منیر جیسے مزید افراد سامنے آئیں جو اداروں کی بہتری کے لیے اپنے حصے کا مثبت کردار ادا کریں۔ جب تک تعلیمی اداروں کے معاملات کو بہتر نہیں بنایا جاتا اس وقت نہ تو ریاست کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں کوئی ایسی تبدیلی لائی جاسکتی ہے جس کی بنیاد پر ہم یہ توقع کریں کہ ہماری آئندہ نسلیں بہتر ماحول میں سانس لیں گی۔