فیک ویڈیوز، خواجہ آصف کا خیال اور مولانا و اسد قیصر میں قربتیں!!!!!

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے فیک ویڈیوز کے حوالے سے سخت قوانین کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ محسن نقوی کہتے ہیں "برطانیہ ہویا عرب امارات، جھوٹی ویڈیو شیئر کرنے والوں کے ساتھ ہونے والے سلوک بارے سب جانتے ہیں۔ پاکستان میںآ زادی اظہار رائے ہونی چاہیے لیکن ایسا قانون بھی ہونا چاہیے کہ کوئی جھوٹا الزام لگائے تو اْس کو پکڑا جا سکے۔" وزیر موصوف برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کی مثال تو دے رہے ہیں کہ وہاں جھوٹی ویڈیوز شیئر کرنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ ویسے تو یہ مثال ہی غلط ہے۔ اگر وہ قوم کو یہ بھی بتائیں کہ ان دونوں ممالک میں جھوٹ بولنے والے حکمرانوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے تو تصویر مکمل ہو گی، ان دونوں ممالک میں عام آدمی کی زندگی کیسے گذرتی یے، وہاں مزدوروں کے حقوق کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے، برطانیہ میں کتنے بے روزگار افراد کا کچن حکومت چلاتی ہے اور متحدہ عرب امارات میں زندگی ایک اوسط درجے کی ملازمت کرنے والے کو کتنے پیسے ملتے ہیں۔ اگر تو حکومت دیگر کاموں میں بھی متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کی تقلید کرتی ہے تو پھر ان کی مثالیں ضرور دے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر صرف عوام کو گھیرنے کے لیے ان ممالک کی مثالیں دینا مناسب نہیں ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ فیک ویڈیوز شیئر کرنے والوں، جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ ایسے افراد کے ساتھ کوئی نرمی نہیں ہونی چاہیے ۔ ایسے افراد کیخلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے لیکن صاحب اقتدار اس بات کا تعین بھی کر لیں کہ جھوٹے وعدوں پر منتخب نمائندوں کا ووٹر کس فورم پر اپیل کرے، جھوٹ تو ہر حال میں جھوٹ ہے، وہ جھوٹی ویڈیو ہے، جھوٹی خبر ہے یا جھوٹا وعدہ و نعرہ ہے۔ وزیر داخلہ صاحب ایسے تمام افراد کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کا اعلان کریں اور پھر اس پر عمل بھی کریں۔ اس معاملے میں کسی خاص سیاسی جماعت کے افراد کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی اختیار نہیں کرنی چاہیے بلکہ بلا امتیاز کارروائی ہی ماحول کو بہتر بنا سکتی ہے۔ حکمرانوں کو صرف ان قوانین پر زور نہیں دینا چاہیے جن سے انہیں تھوڑا سکون ملنے کی امید ہو بلکہ قانون سازی عام آدمی کے کی سہولت کے لیے ہونی چاہیے۔ متحدہ عرب امارات اور برطانیہ والی سہولیات دیں تو پھر قوانین بھی ان جیسے سخت کر دیں تو بات ہضم ہوتی ہے لیکن صرف اپنے فائدے کے لیے مثالیں دینا زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
ہمارے وزیر دفاع خواجہ آصف بھارت سے کشمیر کے معاملے میں نرمی کی امید رکھتے ہیں۔ کیا کہنے ہیں
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
خواجہ صاحب ہمسایہ ملک سے تجارت کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر بھارت کشمیر کے معاملے میں نرمی کرتا ہے تو پھر دونوں ملکوں کے مابین تجارت ہو سکتی ہے۔ خواجہ صاحب ہوش کے ناخن لیں، بھارت دہائیوں سے کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کر رہا ہے۔ ان حالات میں بھی آپکو تجارتی تعلقات کی بحالی کا بیان دینے کی کیا ضرورت ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ بھارت کشمیر کے معاملے میں لچک دکھائے۔ یعنی بھارت ظلم و ستم کم کرے یہ کیسا بیان ہے۔ کشمیر کی آزادی بھارتی اقدامات کی مذمت سے نہیں بلکہ نریندرا مودی اور اس کے ساتھیوں کی مرمت سے جڑی ہوئی ہے۔ ویسے تو کشمیر کی آزادی تک بھارت سے کسی بھی قسم کے تعلقات کی ضرورت نہیں ہے ہمیں کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اس کے برعکس ہم بھارت سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ذرا ہتھ ہولا رکھے۔ کیا اس پالیسی سے کشمیر آزاد ہو گا۔ وزیر دفاع یہ بھی کہتے ہیں کہ ایران کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے کی وجہ سے ہے۔ میں پوچھتا ہوں مسلم دنیا کے تمام حکمرانوں سے روز محشر وہ کہاں کھڑا ہونا چاہیں گے کیا اس وقت بھی وہ یہ دیکھیں گے کہ وہ کس سائیڈ پر ہیں، کیا اس وقت ان کے بس میں ہو گا کہ وہ فلسطین اور اسرائیل میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ کیا ہم بھی وقت کے ساتھ ساتھ کشمیر کی حمایت میں کمی اس لیے کرتے جا رہے ہیں کہ ہمارا حال بھی فلسطین جیسا نہ ہو جائے لیکن یاد رکھیں امریکہ کی افغانستان میں آمد اور انخلا کے بعد بھی جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے وہ بہت بڑا سبق ہے اور سب سے بڑھ کر سبق ہمیں اللہ کی کتاب قرآن کریم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت سے ملتا ہے۔ اگر ہم قرآن کریم کے احکامات اور تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت کو نظر انداز کریں گے تو دنیا و آخرت میں رسوائی ہمارا مقدر ہو گی۔ یہ رسوائی نظر تو اس وقت بھی آ رہی ہے اگر کوئی دیکھنا اور سمجھنے چاہے تو جو ہو رہا ہے اس کی وجہ حکمرانوں کے فیصلے ہی ہیں۔
خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان سے ٹیلی فونک رابطہ میں دونوں رہنماؤں نے سیاسی صورتحال اور حکومت سازی کے عمل پرتبادلہ خیال کیا ہے۔ گفتگو میں جے یو آئی اور پی ٹی آئی کے درمیان رابطوں کو بڑھانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اسد قیصر نے کہا کہ "گفتگو میں مولانا فضل الرحمان کو عید کی مبارکباد دی جبکہ سربراہ جے یو آئی کو حکومت کے حوالے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ اسد قیصر نے کے مطابق دونوں جماعتیں حکومت سازی کے موجودہ عمل کو مسترد کرتی ہیں، عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر جعلی حکومت بنائی گئی، جعلی حکومت کے خلاف منظم عوامی جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جدوجہد کے حوالے سے پی ٹی آئی اورجے یو آئی میں فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔"
سیاسی جماعتوں میں رابطے بہت اچھی بات ہے یہ اتحاد ہونا چاہیے لیکن اگر یہ اتحاد صرف اور صرف ذاتی و سیاسی مفادات کی خاطر ہو تو عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے ۔ جے یو آئی وہ جماعت ہے جسے بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھیوں نے ہمیشہ کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ دوسری طرف مولانا کی جماعت بھی پی ٹی آئی کے بانی کو یہودیوں کا ایجنٹ کہتی رہی ہے۔ اس وقت یہ اتحاد ثابت کرتا ہے کہ دونوں سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے سیاسی فلسفے اور نظریے کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہے۔ اس سیاسی قربت کی وجہ سے دونوں کا نظریہ تو بہرحال دفن ہو گیا ہے۔ یہی بات پاکستان کے ووٹرز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی بھی سیاسی جماعت کسی نظریے کے ساتھ سیاست نہیں کرتی بلکہ سب ہر وقت پاور پالیٹکس کرتے ہیں۔ پی ٹی آئی اور جمعیت علماء اسلام نے بھی وہی کیا ہے۔ پس ثابت ہوتا ہے کہ اہمیت طاقت کی سیاست میں نظریہ اور فلسفہ بھی حصول اقتدار یا اقتدار میں موجود سیاسی طاقتوں کو گرانا ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں فکری ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ درحقیقت یہ فکری ہم آہنگی نہیں بلکہ بوقت ضرورت ہم آہنگی ہے۔
آخر میں عدیم ہاشمی کا کلام
عدیم میں نے تو زخموں کو اب شمار کِیا
میں یہ سمجھتا رہا، اْس نے ایک وار کِیا
عدیم دل کو ہر اِک پر نہیں نِثار کِیا
جو شخص پیار کے قابل تھا، اْس کو پیار کِیا
پھر اعتبار کِیا، پھر سے اعتبار کِیا
یہ کام اْس کے لیے ہم نے بار بار کِیا
کِسی سے کی ہے جو نفرت تو اِنتہا کر دی
کِسی سے پیار کِیا ہے تو بیشمار کِیا
نہ تھی وصال کو بھی کچھ مداخلت کی مجال
جب اِنتظار کِیا، صِرف اِنتظار کِیا
اْمیدِ وصل شبِ ہجر کے سمندر میں
یہی لگا ہے کہ تِنکے پہ اِنحصار کِیا
بہت حسین ہوئیں بیوفائیاں اْس کی
یہ اْس نے جان کے خْود کو وفا شعار کِیا
اْتر گیا کوئی دل سے تو قبر میں اْترا
اْسے سدا کے لیے شاملِ غْبار کِیا
وہ اب مرے کہ جئے دل پہ کوئی بوجھ نہیں
میں مطمئن ہوں کہ پہلے اْسی نے وار کِیا
قصْور اْس کا نہیں ہے، قصْور میرا ہے
عدیم مَیں نے اْسے پیار بیشمار کیا

ای پیپر دی نیشن