اکثر لوگ جانتے ہیں کہ سرکس میں جو کر لوگوں کو اپنی حرکات و سکنات سے خوش کرنے اور ہنسانے کے لیے مختلف کرتب دکھاتا ہے۔ لوگ اس سے انجوائے کرتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک سرکس کے دوران جو کر نے بلندی سے چھلانگ لگائی اور زمین پر چاروں شانیں چت لیٹ گیا ۔ وہاں موجود حاضرین زبر دست تالیاں اور سیٹیاں بجا بجا کر اسے داد دیتے رہے، خوش ہوتے رہے لیکن اس نے نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا وہ مر چکا تھا۔ اسی طرح لوگ پتنگ بازی کرتے ہوئے مخلوظ ہوتے ہیں، اسے ایک روایتی کھیل اور شغل قرار دیتے ہیں۔ پتنگ بازی کا آغاز 3 ہزار سال پہلے چائے میں ہوا ۔ شاید کبھی یہ ایک مشغلہ کھیل تماشار ہا ہو، لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ جب سے پتنگ بازی کے لیے تیز دھار ، دھاتی اور کیمیکل ( مانجھا ) لگی ڈور کا استعمال بڑھا ہے یہ ایک خونی عمل بن چکا ہے۔ پتنگوں کی ڈور پھرنے کی بناء پر، گلے کٹنے سے لوگ مر رہے ہیں ۔ اکثر موٹر سائیکل سوار ڈور پھرنے اور بچے انگلیں لوٹنے کی کوشش میں حادثات کا شکار ہو کر زخمی ہو جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے کثیر تعداد میں لوگ پتنگ بازی سے مضروب اور جان بحق ہو چکے ہیں۔ آپ تصور کریں کہ کوئی شخص اپنی نوکری ختم کر کے یا بازار سے سودا سلف لے کر اپنے خیالوں میں تم اپنے دھیان میں خود یا بچے کے ساتھ اپنے گھر اپنی فیملی کے پاس جارہا ہو اور اچانک سڑک پر کہیں سے تیز دھار دھاتی ڈور ا سکے ساتھ الجھ کر اسے یا بچے کو شدید مضروب کر دے یا زندگی ہی ختم کر دے تو ایک شخص کا حادثہ نہیں ہوگا بلکہ یہ پوری فیملی کے لیے نہایت اذیت اور کرب کا باعث ہوگا۔ اور اس کا احساس صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ پینگیں بنانا، فروخت کرنا ، اْڑانا ، اڑانے میں سہولت مہیا کرنا اور اس دوران ہوائی فائرنگ کرنا قانوناً جرم قرار دیے جاچکے ہیں اور ان کی خلاف ورزی پر پولیس سختی سے قانونی کاورائی کرنے کے لیے عزم ہے۔ اس سلسلے میں عوام الناس کو پتنگ بازی کے مضمرات سے مطلع کرنے کے لیے ایک بھر پور آگاہی مہم کا آغاز بھی ہو چکا۔ ضرورت اس امر کی ہے ہم سب بھی مل کر پتنگ بازی کے اس خونی کھیل تماشہ کو روکنے کے لیے موثر اقدامات کریں۔ والدین پر اس سلسلے میں بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس خونی شغل سے باز رکھیں ورنہ بچوں کی جانب سے کسی غیر قانونی فعل کی ذمہ داری براہ راست ان کے والدین کی گردانی جاتی ہے۔
پتنگ بازی سے ہونے والے نقصانات و حادثات کو عموماً سیریس نہیں لیا جاتا اور لوگ اسے محض وقتی کھیل تما شاہی سمجھتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ استاد تعلیمی اداروں میں ، علماء مساجد میں اور صحافی اپنے قلم سے غرض یہ کہ معاشرے کا ہر فر دلوگوں کو پتنگ بازی کے نقصانات سے آگاہ کرنے میں اپنا اپنا کردارادا کریں اور ہم سب مل کر پتنگ بنانے ، فروخت کرنے ، اْڑانے والوں کی حوصلہ شکنی کریں اور اسے روکیں ورنہ کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی ۔
خونیں مشغلہ
Apr 18, 2024