ویسے تو اسی انٹرویو میں سفیر محترم نے آگے چل کر ایک بار پھر پاک امریکہ دوستی کی ناگزیریت بیان کی ہے لیکن اگر آپ تھوڑی توجہ کے ساتھ مذکورہ انٹرویو کی جزئیات اور حقانی صاحب کی بدن بولی پر نظر ڈالیں تو آپ کو احساس ہو گا کہ حقانی صاحب امریکہ کی جملہ نالائقیوں پر سخت ناخوش ہیں۔ ان میں سے ایک تو واشنگٹن کی وہ خاموشی ہے جو اس نے پاکستانی معاملات میں آجکل روا کر رکھی ہے۔ ایوان صدر اور پیپلز پارٹی کے زرداری حلقوں میں آجکل یہ تشویش بڑی شدت کے ساتھ پائی جا رہی ہے کہ اوباما انتظامیہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ’’زرداری کش‘‘ عزائم کی طرف سے مکمل صرف نظر کرتی چلی جا رہی ہے۔ ’’مائنس ون‘‘ جو کہ خالصتاً اسٹیبلشمنٹ کی وضع کردہ اصطلاح ہے‘ آجکل پورے تزک و احتشام کے ساتھ مارکیٹ میں گردش کرتی پھرتی ہے اور جس کے سبب ہر وہ چھوٹا بڑا پاکستانی جس کا عہدہ‘ رزق یا حیثیت کسی نہ کسی حوالے سے عزت ماب قبلہ آصف علی زرداری مدظلہ‘ کے ساتھ وابستہ ہے‘ اس وقت بدترین پریشانی کا شکار ہے۔ این آر او کی لٹکتی تلوار اس وقت دہشت کی علامت بن کر ان احباب کو مزید پریشان کر رہی ہے۔ کیانیؔ اور گیلانیؔ کے ’’مشترکہ تیور‘‘ بھی کچھ زیادہ اچھے نظر نہیں آتے اور اب رہی سہی کسر ہالبروکؔ جیسے بے موسمی بزرگوں نے یہ کہہ کر نکالنی شروع کر دی ہے کہ نواز شریف کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا عین امریکی مفاد میں ہے۔
زرداری صاحب کی طرف سے اٹھنے والی اس دبی دبی سی صدائے احتجاج کا شور تو خیر کسی نے نہیں سنا البتہ اس کی گم گشتہ سی بازگشت اب بہت سوں کو سنائی دینے لگی ہے۔ صدر اپنے دورۂ چین کو بھی ضرورت سے زیادہ اہمیت دے رہے ہیں اور ہم خود اس کی بھرپور توقع رکھتے ہیں کہ موصوف کم از کم اس مرتبہ ترقیاتی اور اقتصادی نوعیت کا کوئی نہ کوئی سانپ ضرور نکالیں گے جس کی امید میں پوری پیپلز پارٹی ’’پھاوا‘‘ ہو چکی ہے۔
امریکی سفارتخانے کی ایک حرکت ہمیں بھی کچھ زیادہ اچھی نہیں لگی اور وہ یہ کہ پاکستان کے خلاف نازیبا کلمات ادا کرنے والے اس سیکورٹی اہلکار کو سزا کے طور پر اسلام آباد سے واپس امریکہ بھیج دیا گیا ہے۔ اب بندہ یہ پوچھے کہ اس میں بھلا سزا والی ایسی کیا بات ہے؟ اس سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص کو اس بدزبانی اور بدکلامی پر باقاعدہ نوازا گیا ہے کہ اسے پاکستان سے اٹھا کر واپس اس کے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ اس بات سے بھی امریکی حکام کی بدنیتی جھلکتی ہے ورنہ سزا تو یہی تھی کہ اس گستاخ کو اگلے دس سال یہیں رکھا جاتا اور اگر اس کے مزاج پھر بھی درست نہ ہوتے تو اسے کابل تعینات کر دیا جاتا اور اگر اس کی بدمزاجی یونہی جاری و ساری رہتی تو وہ کسی بھی وقت دوچار خوش مزاج اور ’’باذوق‘‘ افغانیوں کے ہتھے چڑھ جاتا۔ اسے کم از کم چھ ماہ مسلسل ’’حبس بے جا‘‘ وغیرہ میں رکھا جاتا اور جب نیٹو افواج اسے کسی پوشیدہ مقام سے برآمد کرتیں تو اس کی ’’انگریزی‘‘ کا مکمل ستیاناس ہو چکا ہوتا اور وہ کم نصیب فرفر پشتو یا فارسی بول بول کر اپنی نہایت دلدوز آپ بیتی سنا رہا ہوتا مگر افسوس کہ ہمارے دفتر خارجہ کی غفلت کے سبب یہ نادر موقعہ بھی ضائع ہو گیا!!
آخری گزارش ہمیں قبلہ آصف علی زرداری سے کرنی ہے کہ جناب پارٹی معاملات پر آپکی گرفت بتدریج ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے اور وہ ’’بلاول کارڈ‘ جس پر آپ ضرورت سے زیادہ تکیہ کئے بیٹھے ہیں‘ وہ معجزے ہرگز ہرگز نہیں کر سکے گا جن کی آپ کو توقع ہے کیونکہ نوجوان تو ابھی تعلیمی مراحل ہی مکمل نہیں کر پایا‘ وہ سیاست کو وقت کس طرح دے گا۔ سو بہتر ہے کہ آپ فی الحال یوسف رضا گیلانی پر ہی اکتفا کریں کیونکہ جس تیزی کے ساتھ انکی اور شہباز شریف صاحب کی دوستی پروان چڑھ رہی ہے‘ کوئی بعید نہیں کہ یا تو گیلانی صاحب نواز لیگ میں شامل ہو جائیں اور یا پھر یہ دونوں احباب بہلا پھسلا کر میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنوا دیں اور آپ صرف انکے منہ ہی دیکھتے رہ جائیں۔
اپنی اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہمیں بس یہی کہنا ہے کہ بلوچستان‘ سندھ اور خصوصاً کراچی کے حالات فی الحال ایسے ہرگز نہیں کہ ’’مائنس ون‘‘ یا اس سے ملتا جلتا کوئی بھی اور پنگا لیا جا سکے۔ ہمارا ذاتی گمان تو یہی ہے کہ آپ احباب کی طرف سے اس کام کی تیاریاں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ کی جا رہی ہیں مگر ہمارا بن مانگا مشورہ یہی ہے کہ آپ اس سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے کیونکہ پاکستان کی حالت اب اس دانت کی سی ہو چکی ہے جو آئے دن کسی نہ کسی حادثے یا چھوٹی موٹی ٹکر کے باعث کافی کمزور ہو کر ہلنے لگتا ہے۔ چنانچہ جب تک آپ اسے بارِدیگر مضبوط نہیں کرتے اور اس کے گرد و پیش کو درست نہیں کرتے خدارا تب تک باکسنگ کے اس کھیل سے اجتناب ہی برتیں جو آپ ہر تین چار سال بعد کھیلنے لگتے ہیں۔ حالات اب وہ پہلے جیسے نہیں ہیں۔ بجلی اور چینی کے ستائے لوگوں کو تو صرف بہانہ چاہئے۔ اس لئے مائنس ون یا مائنس آل کی بجائے ’’پلس آل‘‘ پر ہی توجہ مرکوز رکھیں کیونکہ صورتحال پر اب آپکی گرفت وہ نہیں رہی جو کبھی ہوا کرتی تھی۔
آگے آپ کی مرضی کہ ہمارا کام صرف سمجھانا ہے اور وہ ہم نے کر دیا۔ اب آپ جانیں اور آپ کا کام!