افسوس کہ نوازشریف کو زیادہ توفیق اور حوصلہ نہ ہوا ورنہ وہ ایک ارب روپے کا اعلان بھی کرسکتے تھے۔ انکے ایک ارب ایک کروڑ کے برابر ہیں تو پھر شاید پرویز مشرف بھی ایک ارب کا اعلان کرتا۔ ضد آخر ضد ہے۔ نوازشریف ضدی سیاستدان ہے تو وہ ضدی جرنیل ہے۔ اب ایک ارب روپیہ پرویز مشرف کیلئے بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن یہ سوال ہے کہ نواز شریف تو کروڑپتی ہے کروڑپتی باپ کا بیٹا۔ مشرف جرنیل ہوتے ہوئے کیسے کروڑپتی بن گیا؟ ایک ارب تو ہمایوں اختر بھی دے سکتا ہے، بقول اس کے اس کے پاس بڑا پیسہ ہے۔ کشمالہ طارق ایک کروڑ دے کر ان سب کو شرمندہ کردے۔ دنیا کے سب سے زیادہ ارب پتی پاکستان میں ہیں۔ وہ ایک ایک ارب دیں تو کام بن جائیگا۔ ان سے چھین لو اور مصیبت زدگان کو دیدو ورنہ لوگ خود چھین لیں گے۔ نوازشریف سیانا کروڑپتی ہے سب کچھ انہوں نے بچوں کے نام کردیا ہے۔ ایک بچے کا انگلستان میںمبینہ طور پر 500 بلین پاﺅنڈ سے زیادہ کا کاروبار ہے۔ دوسرے نے سعودی عرب میں سعودی شہزادوں کو حیران کر رکھا ہے۔ ہماری سٹیل مل کا کیا حشر ہوا ہے۔ پرائیویٹ سٹیل مل پاکستان میں لگتی تو اس کا یہ حشر نہ ہوتا۔ ان کا اپنا اور ملک کا فائدہ ہوتا۔ سعودی عرب کو کیا ضرورت ہے؟ سعودی عرب سے امداد حکومت پاکستان کی بجائے حکومت پنجاب کو ملی ہے۔ یہ امداد کہاں جائیگی۔ حمزہ شریف اسکا حساب دے پائیگا۔ اس نے یہ امداد وصول کی ہے۔ اس سے پہلے قرض اتارو ملک سنوارو کیلئے لوگوں نے کھربوں روپے دئیے تھے۔ اس کا کہیں حساب کتاب نہیں۔ پرویز مشرف سے پوچھا جائے کہ زلزلہ زدگان کیلئے کھربوں روپے کی بین الاقوامی اور قومی امداد کہاں گئی؟ تو وہ کہے گا کہ میں نے ایک کروڑ روپے سیلاب زدگان کیلئے واپس کردیا ہے۔ نجانے نوازشریف نے کس حساب میں ایک کروڑ روپیہ دیا ہے۔ پاکستان میں کئی لوگ ہوں گے جنہوں نے ایک کروڑ سے زیادہ دیا ہوگا جبکہ وہ شریفوں کے مقابلے میں کنگلے ہوں گے۔ ایسے میں صدر زرداری کی طرف سے 35 کروڑ روپے زیادہ لگتے ہیں جبکہ یہ بھی کم ہیں۔ نوازشریف اور پرویز مشرف نے اس پر خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ صدر زرداری کیخلاف نوازشریف کی بیان بازی یعنی جوتا بازی ختم ہوگئی ہے۔ وہ مخدوم گیلانی کے گھر چلے گئے ہیں جبکہ انہیں معلوم ہے کہ گیلانی صدر زرداری کی اجازت کے بغیر کچھ بھی نہیں کرتا۔ سیلابی امداد میں نوازشریف آپس میں مقابلہ کررہے ہیں۔ یہ مقابلہ اچھا ہے اگر وہ ایک دوسرے کو ہرانے کیلئے نہ ہو۔ کہا گیا کہ بھلائی اور نیکی میں خاص طور پر خلق خدا کی مدد کیلئے مقابلہ ہو تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ میں نے دیکھا کہ شوکت خانم ہسپتال کی افطاری میں چند ہزار آدمیوں، عورتوں اور بچوں نے چند منٹوں میں ساڑھے تین کروڑ روپے دیدئیے۔ صرف اعلان نہیں کیا۔ ایسے اعلان صرف سیاسی بیان بن کر رہ جاتے ہیں۔ زلزلہ زدگان کیلئے 6 ارب ڈالر آئے تھے۔ وہ کہاں گئے؟ زلزلہ زدگان کے دلوں میں آج بھی زلزلے آتے رہتے ہیں۔ ابھی سیلاب ختم نہیں ہوگا، یعنی عذاب ختم نہیں ہوگا۔ سیلاب آیا ہے مگر اب دنیا والے بہت کم دے رہے ہیں۔ ملک میں زیادہ امداد نہیں آرہی، بداعتمادی کی انتہا ہے، کہتے ہیں ہمیں ڈر ہے کہ امداد صحیح طرح استعمال نہیں ہوگی۔
نوازشریف نے ایک کروڑ دئیے۔ لوگ حکمرانوں پر بداعتمادی کی وجہ سے اب کے بہت پیچھے ہیں مگر کروڑوں روپے اکٹھے ہوگئے ہوں گے تو وہ کہاں گئے۔ میڈیا والے حکمرانوں سیاستدانوں سے زبردستی باتیں کروا رہے ہیں۔ انہیں پبلسٹی دینا کچھ اینکرز اور کچھ صحافیوں کا مشغلہ ہے۔ حکمران اور سیاستدان کہہ رہے ہیں کہ ہم نے یہ کردیا وہ کردیا جبکہ سیلاب زدگان پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا۔ کوئی سرکاری آدمی ہمارے پاس نہیں آیا۔ ہم نے کچھ کھائے پیئے بغیر روزہ رکھا ہے۔ اب نجانے افطار کیسے کریں گے۔ یہ بات وزیراعظم سے ایک اجڑے ہوئے شخص نے روتے ہوئے کہی۔ مخدوم گیلانی ”مرشد پاک“ نے اسے صبر کی تلقین کی اور دعا کی۔ مخدوم شاہ قریشی کے والد مخدوم سجاد قریشی جب جنرل ضیاءکے گورنر پنجاب تھے تو وہ بھی مصیبت زدگان کیلئے صرف دعا کیا کرتے تھے۔ اب بھی شاہ محمود قریشی جنرل ضیاءکیلئے دعا کرتا ہے کہ میرے باپ کو گورنر بنایا۔ صدر زرداری کو بھی دعا دیتا ہے کہ مجھے وزیر خارجہ بنایا ورنہ وہ وزارت خارجہ میں افسر بھی بھرتی نہ ہوسکتا تھا۔ سجاد قریشی نے بیوروکریسی کے ساتھ ساتھ ”اللہ کریسی“ کو رواج دیا تھا۔ اللہ تو کریگا مگر بندہ بھی کچھ کرے۔ حکمران جو کرسکتے ہیں اور وہ کیا نہیں کرسکتے مگر نہیں کرتے نہیں کرنا چاہتے۔ بیوروکریسی نے اس قیامت کے وقت بھی روائتی فرعونیت اور عوام دشمنی کا ثبوت دیا ہے۔ لوگوں کو ذلت اور اذیت سے دوچار کیا ہے۔ اب تو انکی طرف سے اذیت اور ذلت ان کا مقدر بن گیا ہے۔ بیوروکریسی آرام کررہی ہے۔ تو یہ کون بتائیگا کہ امداد کہاں جا رہی ہے۔ ایک رشتہ دار خاتون نے گھر آئے ہوئے بچے سے کہا بیٹا پیٹ بھر کے کھالو۔ اس نے کہا پیٹ بھر گیا ہے۔ خاتون نے کہا کہ پھر کچھ نہ کچھ اپنی جیبوں میں ڈال لو، اس نے کہا کہ وہ بھی منہ تک بھر گئی ہیں۔ حکمران سرکاری خزانے سے لاکھوں کروڑوں خرچ کر کے سیلاب زدگان کے پاس جا رہے ہیں۔ یہ انکے پاس جاکے کیا کرتے ہیں۔ صرف انکے ساتھ تصویریں بنوا کے وہ کونسا فلاحی کام کررہے ہیں۔ یہ تو کرپشن اور ظلم کی انتہا ہے۔ فطرت نے غریبوں پر انتہا کردی ہے، باقی کام انسانی فطرت کے ظلم و ستم سے پورا ہوجائیگا۔