”دما دم مست قلندر“

اثر چوہان
سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل میمن کا نام بھی اُن کی طرح خوبصورت ہے ۔لفظ شرجِیل ، ”شرج“ سے نکلا ہے جِس کے معنی ہیں کہکشاں، یعنی تاروں بھری رات میں، ایک نورانی راستہ سا جو نظر آتا ہے۔ شرجیل صاحب کا چہرہ نورانی ہے اور اُن کی گفتگو سے پھول جھڑتے ہیں(بند گوبھی کے)، جنہیں وہ سپریم کورٹ کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ اپنی تازہ ترین گُل فشانی میں شرجیل صاحب فرماتے ہیں”ہم جوڈیشل مارشل لاءکسی صورت قبول نہیں کریں گے۔وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کو گھر بھیجا گیا تو برداشت نہیں کریں گے اور اگر ہماری قیادت نے اشارہ کِیا، تو مُلک بھر میں پی پی پی کے کارکن ”دما دم مست قلندر“ کر دیں گے“۔
شرجیل میمن کا عدلیہ پر تنقید کا انداز، عام طور پر نرم ہوتا ہے۔ وہ فیصل رضا عابدی اور فواد چودھری کی طرح ”لٹھ بازی“ نہیں کرتے۔ فواد چودھری تو پیشہ ور لٹھیت ہیں۔ پہلے جنرل پرویز مشرف کے سایہءعاطفت میں”انّھے واہ“ لٹھ بازی کرتے تھے اور آج کل صدر زرداری کی کفالت میں مُنہ سے جھاگ نکالتے ہوئے سپریم کورٹ پر گرجتے، برستے ہوئے چاروں طرف داد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ابھی نوجوان ہیں شاید اس لئے!
”دمادم مست قلندر“ کی اصطلاح عام طور پر قوالی میں استعمال ہوتی تھی، جِس پر بعض لوگ دھمال بھی ڈالتے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے اِس اصطلاح کو 1971ءمیں سیاسی طور پر استعمال کیا تھا۔شرجیل میمن 14جون 1974ءکو پیدا ہوئے وہ آصف زرداری صاحب کی قیادت میں پی پی پی میں شامل ہوئے۔ انہوں نے ”دمادم مست قلندر“ کی اصطلاح پارٹی کے سینئر لوگوں سے سُنی ہوگی۔ تاثر یہی مِلتا ہے کہ وہ مُنہ چڑا چڑا کے سپریم کورٹ کو مشتعل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہوا یوں کہ 1971ءمیں مشرقی پاکستان پر پاک فوج کی گرفت کمزور پڑ رہی تھی۔ عوامی لیگ کی ذیلی تنظیم ” مکتی باہنی“ بھارتی فوج کی سر پرستی اور کمان میں، مُحبِ وطن پاکستانیوں کا قتل ِ عام کر رہی تھی۔ لیکن صدر جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے اہلِ وطن کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ ” امریکہ کا ساتواں بحری بیڑا پاکستان کی مدد کو پہنچنے والا ہے۔ امریکی بیڑا تو نہیں پہنچا ،البتہ ہمارا بیڑا ضرور غرق ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹوجنرل یحییٰ خان کی فوجی حکومت میں ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر خارجہ تھے۔ وہ عوامی جمہوریہ چین کے دورے پر گئے۔ چِین نے 1965ءکی پاک بھارت جنگ میں پاکستان کی بھر پور مدد کی تھی لیکن وہ 1971ءکی جنگ میں غیر جانبدار رہا۔چینی قیادت نے بھٹو صاحب پر یہ بات واضح بھی کردی تھی،بھٹو صاحب کا چین کا دورہ ناکام ہو گیا تھا۔ لیکن انہوں نے وطن واپس آکر میڈیا کو بتایا کہ ”اب دما دم مست قلندر ہوگا“۔
بھٹو صاحب کے بیان سے اہلِ پاکستان نے یہ تاثر لیا کہ 1965ءکی طرح اِس بار بھی چین، پاکستان کی مدد کرے گا اور پاک فوج، مشرقی پاکستان کو بچالے گی، لیکن پاکستان دو لخت ہو گیا۔ ہمارا ”دما دم مست قلندر“ ہو گیااور جنرل یحییٰ خان کی حکومت کابھی اس طرح ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کے پہلے سِویلین چیف مارشل لاءایڈمنسٹریٹر اور صدرِ پاکستان بن گئے۔
پھر ہماری سیاست میں ” دما دم مست قلندر“ کی اصطلاح عام ہو گئی۔نہ صرف پی پی پی بلکہ دوسری سیاسی جماعتوں ، یہاں تک کہ جماعتِ اسلامی کے کئی لیڈروں نے اپنے مقصد کے معنے پہنا کر ” دما دم مست قلندر“ کی اصطلا ح کو اپنالیااور سول سوسائٹی کے لوگوں نے بھی۔بھٹو صاحب نے جنرل ضیاءالحق کو چیف آف آرمی سٹاف بنانے کے لئے سات جرنیلوں کا ”دما دم مست قلندر“ کر دیا۔ پھر وہ خود جنرل ضیاءالحق کے ”دما دم مست قلندر“ کا شکار ہوئے۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی ”دما دم مست قلندر“ کرکے اپنے محسن، وزیرِ اعظم نواز شریف کو بر طرف کرکے جیل بھیج دیا۔ پھر سعودی عرب نے دونوں فریقوں میں غیر تحریری ”دما دم مست قلندر“ کرا دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف میں میثاقِ جمہوریت بھی ایک طرح کا ”دما دم مست قلندر“ ہی تھا لیکن امریکہ نے محترمہ اور صدر پرویز مشرف کے درمیان بیک ڈور چینل سے ”دما دم مست قلندر“ کرا دیا یعنی این آر او ۔
یہ بھی ایک طرح کا ”دما دم مست قلندر“ ہی تھا کہ جنرل پرویز مشرف وردی سمیت صدرِ پاکستان منتخب ہوئے۔ موجودہ ڈپٹی پرائم منسٹر، چودھری پرویز الہیٰ اس وقت پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ تھے۔ انہوںنے ”دما دم مست قلندر“ کرتے ہوئے اعلان کردیا تھا کہ ” مسلم لیگ ق دس بار جنرل پرویز مشرف کو وردی سمیت صدرِ پاکستان منتخب کرائے گی۔ امریکی شہری شوکت عزیز بھی ” دما دم مست قلندر“ کے ذریعے وزیرِ اعظم پاکستان ”منتخب“ ہوئے اور ”حلالہ وزیرِ اعظم “ چودھری شجاعت حسین بھی۔
صدر پرویز مشرف نے 2002ءکے عام انتخابات سے پہلے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کے لئے گریجویشن کی شرط لازمی قرار دے دی تھی۔ پھرانتخابات کا” دما دم مست قلندر“ ہوا اوراصلی کے ساتھ ساتھ جعلی ڈگریوں کے حامل امیدوار بھی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔ ”بابائے جمہوریت“نوابزادہ نصر اللہ خان زندہ تھے۔انتخابات سے پہلے انہوں نے کہا کہ” اگر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کا گریجویٹ ہونا ضروری ہے تو صدرِ مملکت کو بھی پی ایچ ڈی ہونا چاہیئے“، لیکن جنرل مشرف نے نوابزادہ صاحب کی اس تجویز کو ”دما دم مست قلندر“ کر دیا۔
عام انتخابات سے پہلے ہی محترمہ بے نظیر بھٹو کا ”دما دم مست قلندر“ ہو گیا۔2008ءکے عام انتخابات کے بعد، نان گریجویٹ آصف علی زرداری کے لئے اندرونی بیرونی قوتوں نے مِل کر ایک نیا ”دما دم مست قلندر“ تیار کیا اور زرداری صاحب صدرِ پاکستان منتخب ہوگئے۔اس سے قبل محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد برآمد کی جانے والی وصیت کے نتیجے میں آصف زرداری کا پارٹی کی قیادت سنبھالنا بھی ”دما دم مست قلندر“ ہی تھا اور بلاول زرداری کا ”بلاول بھٹو“، کہلانا بھی۔
صدر پرویز مشرف کا چیف جسٹس چودھری افتخار محمد چودھری اور اُن کے ساتھیوں کو اُن کے عہدوں سے ہٹانا اور انہیں نظر بند کرنا بھی ” دما دم مست قلندر“ ہی تھا لیکن وکلاءبرادری، سیاسی جماعتوں اور سِول سوسائٹی نے اپنے انداز میں ”دما دم مست قلندر“ کر دیا ۔پھر صدر مشرف کے لئے بھی ایک مشترکہ” دما دم مست قلندر“ تیار کیا گیا اور وہ راہیءمُلک اِنگلستان ہو گئے۔ اقتدار میں آنے کے بعد زرداری صاحب نے قوم کی خدمت میں ایک نئے ”دما دم مست قلندر“ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”کوئی بھی سیاسی وعدہ قرآن یا حدیثِ رسول نہیں ہوتا، لیکن وکلاءبرادری، مسلم لیگ اور اس کی اتحادی جماعتوں اور عوام نے ججوں کی بحالی کے لئے ” دما دم مست قلندر“ کردیا۔ صدر زرداری کا اپنا اندازِ ”دمادم مست قلندر“ تھا وہ اڑ گئے لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی کا” دما دم مست قلندر “غالب آگیا۔
گذشتہ دو سال سے پیپلز پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتیں ، سپریم کورٹ کے ساتھ ” دما دم مست قلندر“ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ یوسف رضا گیلانی کی معزولی اور نا اہلی بھی اسی ” دما دم مست قلندر“ کا نتیجہ ہے۔ اب یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں ”دما دم مست قلندر“ ہو رہا ہے۔ دوہری شہریت کے حق میں قانون کا مسودہ وفاقی کابینہ نے منظور کیا لیکن پارلیمنٹ میں اُس کا ”دما دم مست قلندر“ نہیں ہوسکا۔ توہینِ عدالت کا نیا قانون پارلیمنٹ میں کثرت رائے سے منظور ہوا لیکن سپریم کورٹ نے اُس کا ”دما دم مست قلندر“ کر دیا۔
امریکہ نے نیٹو کی سپلائی بحال کرا لی لیکن ڈرون حملوں کا ” دما دم مست قلندر“ جاری ہے۔ یہ بھی ایک طرح کا ” دما دم مست قلندر “ ہے کہ ” روٹی ، کپڑا، مکان “ کے نعرے کی دعویدار پی پی پی نے بھوکے ننگے عوام کا پہلے سے بھی زیادہ ” دما دم مست قلندر “ کر دیا ہے۔
سٹیل ملز ، ریلوے، پی آئی اے، ایفی ڈرین کی تقسیم، لوڈشیڈنگ ، پیٹرولیم مصنوعات کی نت دِن مہنگائی ، ٹارگٹ کلنگ، اغوا ءبرائے تاوان، ڈاکے ، چوریاں ، غیر ملکی بنکوں میں بلیک منی، محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی پردہ پوشی، اور ہر وزارت اور ہر محکمے میں لوٹ کھسُوٹ بھی تو اپنی اپنی جگہ ”دما دم مست قلندر“ ہی ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے ”دما دم مست قلندر“ کی اصطلاح استعمال نہیں کی لیکن وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ”اگر محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کو سزا نہ ہوئی تو عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے کارکن ہمارے گریبان پکڑیں گے۔“ ایسی صورت میں کِس طرح کا ”دما دم مست قلندر“ ہوگا؟
27اگست کو وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کا ”دما دم مست قلندر “ہو گا یا شرجیل میمن صاحب کے اعلان کے مطابق پیپلز پارٹی کے جیالوں کے ہاتھوں سپریم کورٹ کا، یا پھر تیسری قوّت کے ہاتھوں پورے سسٹم کا، کچھ نہیں کیا جا سکتا۔پس ثابت ہوا کہ ”دما دم مست قلندر“محض ایک سوچ، ایک ذہن اور ایک طرزِ عمل کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک کثیر المقاصد اصطلاح ہے، لیکن یہ ایک مسلّمہ سچائی ہے کہ دنیا کے کسی بھی مُلک میں جب بھوکے ننگے لوگ ”دما دم مست قلندر“کرتے ہوئے گھروں سے نکلے تو انہوں نے تاج و تخت پیروں تلے روند دئے اور اونچے اونچے محلاّت کو زمیں بوس کر دیا۔جب لوگ اپنی محرومیوں کو طاقت بنا لیتے ہیں تو بڑی سے بڑی طاقت کا ”دما دم مست قلندر“ ہو جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن