مقدر کے سکندر

مشرف اپنے اقتدار اور نواز شرف کی جلا وطنی کے دوران کہا کرتے تھے۔” عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ اللہ نے مجھے عزت دی ہے“۔اگر اقتدار میں آنا عزت اور جیل و جلاوطنی ذلت ہے تو آج نواز شریف عزت سے ہمکنار اور مشرف ذلت سے دوچار نظر آتے ہیں۔ اقتدار کو آزمائش کہا جائے اس پر مشرف پورا اترے،نہ نواز ‘بینظیر زرداری اور جنرل محمد ضیاءالحق ہی عوام کے دل میں اپنی جگہ بنا سکے۔ کسی کوحالات، کسی کو جذبات اور کسی کو اسکے اپنے کمالات نے مقدر کا سکندر بنایا لیکن یہ لوگ اپنے اعمال ِ کے باعث دھماکے سے پھٹا گیس سلنڈر اور بپھرا ہوا سمندر ثابت ہوئے جس میں قوم کے ساتھ ساتھ خود بھی جھلسے اور ڈوبے۔ مشرف کی تاریخ پیدائش11اور ضیاءالحق کی 12 اگست ہے ۔ انکی سالگرہ ہرسال خاموشی سے گزر جاتی ہے۔17اگست 1988ءکو صدر جنرل ضیاءالحق وردی میں ایوانِ صدر سے بہاولپور روانہ ہوئے اور واپسی پر جہاز ہی میںراہی ¿ ملکِ عدم ہوگئے۔ آج ملک پر نواز شریف کی حکمرانی ہے ۔یہ پودا ضیا ءالحق ہی نے لگایا تھا ۔انہو ں نواز شریف کی کو اپنی زندگی لگ جانے کی دعا دی تھی۔ ضیاءشاید جھوٹی ق±سم کھانے پر اپنی جاں اور دنیا و جہاں سے گئے اور انکی زندگی نواز شریف کو لگ گئی ۔ ایک وقت تھا جب نواز شریف جنرل ضیاءکا مشن جاری رکھنے کا عہد کیا کرتے تھے‘ لیکن آج ان کے ”مزار“ پر فاتحہ پڑھنے بھی نہیں جاتے۔”مرے تھے جن کیلئے....“ اقتدار میں آئے ہوئے نواز شریف کو دو ماہ ہو گئے ۔انہوں نے ابھی تک قوم سے خطاب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ فرماتے ہیں کہ قوم سے کہنے کو انکے پاس کچھ نہیں۔خبر شائع ہوئی کہ وہ پیر 19اگست کو قوم سے خطاب کریں گے۔اس دوران جناح ایونیو اسلام آباد کا واقعہ پیش آگیا ۔ سکندر نے دو گنیں اٹھا کر پورے ملک میںسراسیمگی پھیلا دی۔ وفاقی دارالحکومت کے حساس علاقے میں ساڑھے 5 گھنٹے تک انتظامیہ کو گھما کر رکھ دیا۔ جب بظاہر پولیس بے بس نظر آئی تو زمرد خان نے بے باکی سے سکندر کو دبوچنے کی کوشش کی اور گھنٹوں پر محیط اس کی گرفتاری کا اپریشن دس سیکنڈ میں انجام کو پہنچا دیا۔ ان حالات میں جان بچ جانے پرنہ صرف سکندر بلکہ زمرد خان بھی مقدر کا سکندر ثابت ہوئے۔اس میں میڈیا کا کردار قابل تحسین ہے جس نے جان ہتھیلی پر رکھ کر کوریج کی اور عوام کو لمحہ لمحہ کی خبر سے باخبر رکھا۔
زمرد خان کوہرکوئی اپنی عینک سے دیکھ رہا ہے۔ کوئی انہیںبہادر اور کوئی احمق کا خطاب دے رہا ہے۔ رانا ثناءاللہ نے انہیں نواز لیگی عینک سے دیکھا جبکہ شہباز شریف نے تعصب کی عینک اتار کر انہیںشاباش دی۔ البتہ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ زمرد کو سکندر تک رسائی کی اجازت کس نے دی؟ چودھری نثار علی خان نے سکندر کی زندہ گرفتاری کا حکم دیا۔ وہ اپریشن کوئی گولی چلائے حتیٰ کہ تنکا ہلائے بغیر کرنا چاہتے تھے لیکن پولیس کی بے تدبیری نے اس پرپانی پھیردیا۔ یہی کچھ ڈرامے کے شروع کے دس پندرہ منٹ میں ہو جاتا تو ملک بدنامی سے بچ جاتا۔ بڑوں کی کوآرڈی نیشن ملاحظہ فرمائیے‘ وزیراعظم نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ وہ تحقیقات کرکے بتائیں کہ اپریشن میں تاخیر کیوں ہوئی۔ چودھری نثار کہتے ہیں‘ اس کا ذمہ دار میں ہوں۔
 وزیراعظم نواز شریف بھی کل قوم سے خطاب کا پیغام دے چکے ہیں۔ نواز شریف سب کے وزیراعظم ہیں بلاامتیاز اس کے کہ ان کی پارٹی کو کسی نے ووٹ دئیے یا نہیں دئیے اس لئے ہر پاکستانی یہ جاننے کا حق اور میاں صاحب سے اپنے متوقع خطاب میں بتانے کی امید رکھتا ہے کہ انہوں نے تو قوم کو ریلیف دینے کے جو وعدے کئے تھے لیکن ٹیکسوں کی بھرمار، مہنگائی کے طومار اور لاقانونیت کے انبار لگا کر عوام کو مزیدتکلیف میں مبتلا کردیا۔ نام لے کر کہا گیا کہ ” ان سے“ قومی خزانے سے لوٹی گئی پائی پائی وصول کریں گے ،ہنوز کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔ سی این جی سٹیشنوں پر لگی لائنوں کو دیکھ کر میاں صاحب دل گرفتہ تھے۔ یہ لائنیں اب مزید طویل ہو گئی ہیں۔ سرکولر ڈیٹ کی ادائیگی کے باوجود بجلی کبھی کبھی اپنا دیدار کرانے آتی ہے اوربجلی کی سی تیزی سے واپس لوٹ جاتی ہے۔ میرٹ کا بڑا چرچا تھا۔ 8 کروڑ میں سے ایک بھی گورنری کے معیار پر پورا نہیں اترا؟ دہری شہریت والوں پر نوازشات؟ خواجہ آصف نے وزیر بنتے ہی کہا کہ تمام سی این جی سٹیشن مالکان گیس چور ہیں۔ میاں صاحب ان چوروں کو اندر کریں اگر یہ بے بنیاد الزام تھا تو خواجہ کو کابینہ سے باہر۔فرمایا تھا کہ عوام میں رہوں گا، وزیراعظم ہاﺅس میں نہیں بیٹھوں گا لیکن ایک کے بجائے دو وزیراعظم ہاﺅس بنا لئے گئے۔ ہفتہ میں کم از کم دو دن وزارت عظمیٰ عمرہ جاتی میں آتی ہے۔ نوازشریف اسلام آباد کا ”کھیڑا “چھوڑیں، خود خلیفہ بنیں اور لاہور کو دارالخلافہ بنا لیں۔
نواز حکومت نے اپنے اپنے شعبہ میں خدمات پر ایوارڈ زکا بھی اعلان کیا ہے۔ کچھ نام دیکھ کر احترام سے سر جھک جاتا ہے ان میں شہید سرفہرست ہیں اور کچھ نام تو حکومت پر الزام اور کارکردگی پر بہتان ہیں۔ کچھ ایوارڈز وصول کرنے والوں کیلئے اعزاز اور کچھ وصول کرنیوالی ہستیوں کا ایوارڈ وصول کرنا ایوارڈ کے اعزاز ہوتا ہے۔ ہلال امتیاز کیلئے عطاءالحق قاسمی اور عرفان صدیقی صاحب بھی مقدر کے سکندر ٹھہرے،ان کا دوسری کیٹگری میں شمار ہوتا ہے۔ وہ شہرت اور احترام کے اس مقام پر ہیں کہ انکے سامنے ہر ایوارڈ ہیچ ہے، سوائے نشان حیدر کے۔ چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں کہ ان کو شریف زادوں کی قصیدہ جوئی اور مخالفین کی ہجو گوئی پر ایوارڈ کا حقدار گردانا گیا۔ ان حضرات کی سیاسی جانبداری اگر مسلمہ نہ بھی ہو ان کا نواز شریف سے گہرا تعلق تو کسی سے پوشیدہ نہیںہے۔ آج کالیا ہوا ایوارڈ تاریخ میں رقم ہو گا۔ انکے کالم اور کردار بھی تاریخ کا حصہ ہیں اور رہیں گے۔ 100 دو سو سال بعد ان کے پڑپوتے لکڑپوتے اور پھر آگے کی نسل ایوارڈ اور کالمز کو یکجا کرکے دیکھے گی تو وہ بھی آج کے انصاف پر دھمال نہیں ڈالے گی۔

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر دی نیشن