میں اپنی دوسری حیرت کا اظہارکر رہاہوں، دوسرا سوال نہیں کھڑا کر رہا۔
محترمہ بے نظیر جلا وطنی ختم کر کے کراچی اتریں تو نصف شب کے عالم میں ان کے استقبالی جلوس پر حملہ ہوا، بم پھٹے، گولیاں چلیں اور کوئی دوسو کے قریب کارکن شہید ہو گئے۔ اتنے ہی زخمی ہوئے۔تاریخ میں اسے سانحہ کارساز کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
محترمہ نے پنڈی میں جلسہ کیا، یہ ایک تاریخی خطاب تھا، انہوںنے شہزادیوں جیسا لباس زیب تن کر رکھا تھا، پھولوں سے لدی ہوئی، ہونٹوں پہ مسکراہٹ سجی ہوئی مگر ایک بار پھر حملہ ہوا، پھر بم پھٹے، پھرگولیاں چلیں اور محترمہ کو شہید کر دیا گیا، درجنوں کارکن بھی دست قاتل کی بھینٹ چڑھ گئے۔
یہ سب کچھ اس واررننگ کے باوجود ہوا جو انہوںنے جلاوطنی ختم کرتے ہوئے ایک ای میل میں دی تھی اور اس میں اپنے ممکنہ قاتلوں کے نام بھی لکھ دیئے تھے،ا ن میں ایک نام چودھری پرویز الہی کا بھی تھا، آصف علی زرداری نے پھوڑی پر بیٹھے ہوئے ق لیگ کو قاتل لیگ کے نام سے یاد کیا، انہی چودھری پرویز الہی کو زرداری کے دور میں ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا گیا، یہ ایک ایسا منصب تھا جس کا آئین میںکوئی ذکر تک نہیں تھا لیکن مجبوری کا نام شکریہ، والامحاورہ کس نے نہیں سن رکھا۔
طاہرا لقادری کی حالیہ واپسی سے قبل بظاہر ان کے گھر کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کے لئے ایک آپر یشن ہوا جس میں ایک درجن کے لگ بھگ افراد کی جانیں چلی گئیں۔گلو بٹ نامی ایک شخص نے چند گاڑیوں کے شیشے توڑ دیئے، اسے حوالہ زنداں کر دیا گیا، شیشے توڑنا کوئی سنگین یا گھناﺅناجرم نہیں تھا پھر بھی اسے ہفتوں جیل کی ہوا کھاناپڑی ، آخر اس کی ضمانت ہوئی تو اسے پھر جیل بھیج دیا گیا ،کس جرم میں ، کوئی نہیں جانتا۔
قادری نے کینیڈا سے واپس لاہور آ کر کارکنوں کو لاہور پہنچنے کی کال دی، کئی شہروںمیں پولیس اور کارکنوں کا تصادم ہوا، ممکنہ قتل و غارت سے بچنے کے لئے پویس نے صبر کا مظاہرہ کیا جس کا پھل کڑوانکلا اور جگہ جگہ قادری کے کارکنوںکے ہاتھوں پولیس والوں کی پٹائی ہوئی، اور چند ایک شہید بھی کر دیئے گئے۔کئی تھانے جلا دیئے گئے۔
یہی طاہرالقادری اسلام آباد میں دھرنے سے خطاب کر رہے تھے کہ ہجوم نے ایک پولیس والے کو پکڑ کر اس کی دھنائی کر دی اور اسے گلو بٹ کا طعنہ دینے کے بعد رہا کیا گیا۔مگر میڈیا بار بار یہ منظر گلو بٹ ثانی کے عنوان سے دکھا رہا ہے۔ اس پولیس والے کا قصور یہ تھا کہ وہ سیکورٹی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد گھر جا رہا تھا۔
عمران خان آزادی مارچ کے لئے پہلے دن لاہور کی مال روڈ پر اڑے رہے، رات کو ان کا قافلہ رینگتا ہوا گوجرانوالہ پہنچا، اگلی صبح یہ لوگ نہاریوں پر پل پڑے،یہ جانتے بوجھتے ہوئے کہ گوجرانوالہ شہر ن لیگ کا قلعہ ہے، عمران نے اس شہر میں اپنے قیام کو طول دیا، جس پر ن لیگی نوجوان بھنا ا ٹھے ا ور انہوں نے چند پتھر دے مارے، عمران اور اس کے حواریوںنے آسمان سر پہ اٹھا لیا، چند پتھر پھینکنے کی واردات کو نئی کربلا میں بد لنے کی کوشش کی گئی۔
قادری اور عمران پے در پے دھمکیاں دے رہے ہیں کہ انہیں کچھ ہوا تو نواز شہباز کو نہ چھوڑا جائے، نہ چھوڑا جائے، ان سے انتقام لیا جائے۔ قانون کی زبان میں ایسی دھمکیوںکو قتل وغارت پر اکسانا کہا جاتا ہے، عام طور پر معمولی دھمکی پر علاقہ پولیس درجنوں افراد کو تھانے میں بند کر دیتی ہے تاکہ فساد عامہ کو روکا جا سکے۔مگر یہاں کھلی دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور قانون گونگا، بہرہ، اندھا بنا دیا گیا ہے۔حالانکہ یہ سیدھا سیدھا بغاوت اور انارکی کا کیس ہے۔
محترمہ نے بھی اپنی ای میل میں ممکنہ قاتلوں کے نام گنوائے تھے مگر یہ دھمکی نہیں دی تھی کہ ان کی شہادت پر ان افراد کی تکا بوٹی کر دی جائے، آصف علی زرداری نے بھی صف ماتم پر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کے لئے ق لیگ کو قاتل لیگ کہہ کرصبر شکر کر لیاتھا۔
قادری اور عمران صرف چند افراد کو دھمکانے پراکتفا نہیں کررہے بلکہ وہ سسٹم کو تہہ وبالا کر نا چاہتے ہیں ۔ وہ منتخب پارلیمنٹ کو توڑنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، آئین کی رو سے اس پر غداری کے جرم کا اطلاق ہوتا ہے۔ دونوں لیڈر عدلیہ کی تحقیر کر رہے ہیں اور معاملات کے فیصلے عدلیہ کے بجائے اپنی زبان سے صادر کر رہے ہیں، انہیں یہ سپریم طاقت کہاں سے عطا ہو گئی۔یہی رویہ سوات کے مولوی فضل اللہ کا تھا، اس کے خلاف پاک فوج نے آپریشن کیاا ور ریاست کی رٹ بحال کروائی، فاٹا کے دہشت گردوں کا رویہ بھی یہی تھا، ان کے خلاف آپریشن ضرب عضب جاری ہے اور بڑی حد تک ریاست کی رٹ بحال کروا دی گئی ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ ، دستور اور عدلیہ کو نہ ماننے کے جرم میں ان پر ایف سولہ سے دو ہزار پاونڈ کے بم گرائے گئے۔ رانی توپوں کے دو سو پونڈ وزنی گولے برسائے گئے اور پاک فوج کے افسرا ور جوان اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس دشوار تریں کارزار میں کود گئے مگر قادری اور عمران نے مولوی فضل اللہ والے رویئے اپنا لئے ہیںتو انہیں سیاست قرار دے کر ان سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں۔ یہاں بھی مذاکرات میں وہی کردار پیش پیش ہیں جو دہشت گرد وں سے مذاکرات میں پیش پیش تھے، ملک پر یہ وقت بھی آناتھا کہ پاک فوج کے شہیدوں کے مرتبے سے انکار کرنے والی جماعت کے سربراہ سراج الحق یہاں بھی سلسلہ جنبانی میں مصروف نظر آتے ہیں۔
ملک میں اس سے پہلے بھی کچھ سیاستدانوںکے ایسے ہی رویوں پر فوج کو حرکت میں آنا پڑا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن اور ان کی عوامی لیگ کو اگرچہ انتخابات میں اکثریت حاصل ہو چکی تھی مگر حالات ایسے پیدا کر دیئے گئے کہ ان کو اقتدار منتقل نہ کیا گیا اور ان کے خلاف فوجی ایکشن چل نکلا، اس فوجی ایکشن کو تقویت دینے کے لئے جماعت اسلامی نے البدرا ور الشمس کے جتھے کھڑے کئے جو شیخ مجیب کی مکتی باہنی سے لڑبھڑ گئے۔ اور ایک آج کی جماعت اسلامی ہے جو دستور، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی نفی کرنے والوں کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر کاربند ہے۔اور ایسے لوگوں سے مذاکرات کئے جا رہے ہیں جنہیں یہ خیال تک نہیں کہ پاک فوج ایک مشکل آپریشن میں الجھی ہوئی ہے، عین اس روز جب قادری ا ور عمران کی طرف سے منتخب پارلیمنٹ توڑنے ، وزیر اعظم کو جیل میں ڈالنے اور عبوری حکومت کی تشکیل کے مطالبے ہو رہے تھے، دہشت گردوںنے موقع غنیمت جان کر کوئٹہ ایئر بیس پر حملہ کر دیا۔ پاکستان کا سارا میڈیا قادری ا ور عمران کی دھمکیوں پر مرکوز تھا اور قوم یہ جاننے سے محروم رہی کہ پاک فوج نے کس قدر تیز رفتار آپریشن کے ذریعے ایئر بیس پر حملے کو پسپا کر دیا ہے۔
ٹی وی اسکرینوں پر دھمکیاں چنگھاڑ رہی ہیں۔پارلیمنٹ کو تہہ کرنے کے مطالبے دہرائے جا رہے ہیں۔من مانے فیصلے نافذ کرنے کا جتن جاری ہے۔سڑکوں اور چوراہوںمیں چند ہزار افراد کی طاقت کے بل پر ریاست کو سرنڈر کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
مگر یہ کیا تضاد ہے کہ اگر ان پر کوئی پتھر بھی پھینک دے ،یا کسی آپریشن میں ان کے ایک درجن افراد کی جانیں چلی جائیں تو آسمان سر پہ اٹھا لیا جائے۔
تو کیا ساری گولیاں ، سارے بم صرف محترمہ بے نظیر کے لئے تھے۔
یہ میرا سوال نہیں ، صرف میری حیرت کا اظہار ہے۔