یہ 1946ءکا زمانہ تھا دوسری جنگ عظیم اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکی تھی۔ برصغیر ہندوستان چاروں طرف آزادی کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ تحریک پاکستان اپنے عروج پر تھی۔ ”لے کے رہیں گے پاکستان“ کے نعرے مسلمانان ہند کے ایمان کا جزو بن چکے تھے۔ ہندو اور انگریز اپنے طور اس کے آگے بند باندھے ہیں ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے تھے بڑے بڑے جلسے ہوتے۔ جلوس نکلتے گولیوں کا چلنا، آنسو گیس کی بھرمار، پولیس کا لاٹھی چارج گرفتاریاں، اور پکڑ دھکڑ روز کا معمول بن چکے تھے۔ کیا بوڑھا، کیا جوان، کیا بچہ ہر شخص اس تحریک میں شامل تھا۔ میں اس وقت گورنمنٹ ہائی سکول میانوالی میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا۔ میری عمر کے بچے اور کچھ نہ کر سکے تو چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں اکھٹے ہو کر گلی گلی پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے پھرتے۔ قریب کوئی جلسہ ہو رہا ہوتا وہاں پہنچ جاتے ہر چھوٹے بڑے لیڈر کی تقریر سننا شغل سمجھتے کچی عمر تھی۔ سیاست کی باریکیوں سے نا آشنا تھے لیکن دل میں پاکستان سے محبت اور عقیدت کی بنیادیں واضح طور پر تعمیر ہو رہی تھیں۔ گویا پاکستان ایک عقیدہ بن چکا تھا اور پاکستان کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے لئے بے انتہا محبت ہر مسلمان کے دل میں موجزن تھی۔ اس دوران ایک روز ہمارے سکول کے سامنے سے مسلم لےگ کا ایک لمبا جلسو گزرا، جو ضلع کچہری کی طرف رواں تھا۔ یہ انگریز کا دور تھا۔ تھانے کچہریاں انگریز کی طاقت اور ہیبت کے نشان تھے۔ کچہری جہاں ضلع کا حاکم اعلیٰ بیٹھا اور پوری طرح مسلح پولیس کی حفاظت میں ہوتا یہاں تک کہ وہاں کسی پرندے کے پر تک مارنے کی مجال نہ ہوتی کسی جلوس کا اس کی طرف رخ کرنا یقینا موت کو آواز دینے کے مترادف تھا۔ لیکن مسلمان جب اپنے جذبہ ایمانی سے پوری طرح سرشار ہوں۔ تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ آج ایسا ہی منظر و پیش نظر تھا۔ کامل جذبے اور قوت ایمانی اس جلوس کو قدم قدم سوئے منزل لئے چلی جا رہی تھی۔ لے کے رہیں گے پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان جیسے فلک شگاف نعرے تھے اور عوام کا ایک سیل رواں۔جب یہ جلوس سکول سے آگے بڑھا تو اس میں مسلمان طالب علموں کی ایک کثیر تعداد بھی اس میں شامل ہو چکی تھی تو میں بھی دیگر طالب علموں کی طرح اپنے اپنے بستے سمیٹے جلوس کے ساتھ ہو گئے کم سنی کی عمر تھی لیکن جذبے صادق تھے۔ اپنے لیڈروں کے لئے محبت کے جذبے بھرے ہوئے تھے چنانچہ جلوس جب کچہری کی عقبی سمت میں پہنچا تو ایک خوبرو، چٹاگورا نوجوان جو اس جلوس کا روح رواں تھا امیر عبداللہ خان روکھڑی زندہ باد کے روح پرور نعروں کی گونج میں نہایت پروقار انداز میں آگے بڑھا اور دیکھتے ہی دیکھتے کچہری کی عمارت کی سیڑھیوں کو پھلانگتا ہوا یونین جیک کے پاس جا پہنچا۔ یہ عمارت کی سب سے اونچی منڈیر پر تمکنت کے ساتھ لہرا رہا تھا واضح رہے یونین جیک کوئی عام جھنڈا نہ تھا یہ اس وقت سلطنت برطانیہ کی عالمگیر حیثیت کا نشان تھا۔ جس کی عمل داری میں کہتے ہیں سورج نہیں ڈوبتا تھا۔ برصغیر ہندوستان کے رہنے والے اس کی توہین تو کیا اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے۔ لیکن چشم فلک نے آج یہ منظر بھی دیکھا کہ عالم اسلام کے ایک جیالے نے غلامی کی اس علامت کو اتار کر تار تار کر دیا اور اس کی دھجیاں نذر آتش کر دیں۔ سب دم بخود تھے۔ یہ کیا ہو گیا ایسے محسوس ہو رہا تھا جیسے یہیں اسی وقت ہماری آنکھوں کے سامنے پاکستان وجود میں آ رہا ہو۔ انگریز کا جھنڈا اتر گیا۔ اور پاکستان کا علامتی سبز جھنڈا لہرا دیا گیا مسلح پولیس وہاںبڑی تعداد میں موجود تھی گولی بھی چلا سکتی تھی جس کا غالب امکان تھا۔ لیکن اس واقعہ سے پولیس اور انتظامیہ اس قدر سہم گئی کہ کچھ بھی نہ کر سکی۔ بعد میں امیر عبداللہ روکھڑی گرفتار کر لئے گئے۔ اور اس ”جرم“ کی پاداش میں چار سال کے لئے انہیں جیل بھیج دیا گیا لیکن پاکستان بننے کے بعد یہ سزا خود بخود کالعدم قرار پائی اور وہ قوم کے ہیرو بن کر جیل سے باہر آگئے
میں نے پاکستان بنتے دیکھا
Aug 18, 2014