ڈاکٹر مجید نظامی ہم میں نہیں رہے لیکن ان کی یاد، ان کے افکار اور ان کی ملک و ملت بالخصوص نظریہ پاکستان کیلئے خدمات رہتی دنیا تک ان کو ہمارے درمیان زندہ رکھیں گی۔ مجید نظامی صاحب مجاہد تھے، انہوں نے جہاں صحافت کے محاذ پر جہاد کیا وہیں انہوں نے دو قومی نظریہ کیخلاف ہونیوالی نام نہاد روشن خیالوں کی سازشوں کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ وہ بیک وقت دو محاذوں پر جہاد کرتے رہے۔ صحافت کے میدان میں نوائے وقت کی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ زرد صحافت اور بلیک میلنگ کے اس دور میں نوائے وقت واحد اخبار ہے جو اپنی بنیاد سے ذرہ بھر بھی پیچھے نہیں ہُوا۔ حق اور سچ لکھنا نوائے وقت کا وصف ہے اور اس وصف کا سہرا مجید نظامی مرحوم کے سر ہے۔ نوائے وقت کے ذریعے انہوں نے نئی نسل کو قیام پاکستان کے مقاصد، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ سے آگاہ رکھا۔ مجید نظامی کی وفات سے ایک اخبار کا چیف ایڈیٹر نہیں بلکہ صف اول کے ایک مجاہد کا انتقال ہوا ہے۔ صحافت میں نت نئے انداز متعارف ہوئے لیکن مجید نظامی صاحب نے نوائے وقت کو نظریہ پاکستان کے دفاع کیلئے ڈھال ہی بنائے رکھا اور الحمدللہ نوائے وقت کی شبانہ روز کوششوں سے ملک دشمنوں کے دانت کھٹے ہوتے رہے اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے۔ ایوان کارکنان پاکستان میں اکثر مجید نظامی کیساتھ ملاقات ہو جاتی۔ وہ سنجیدگی کا منبع تھے۔ وہ ہر وقت پاکستان کے بارے میں سوچتے رہتے تھے۔ ایک بار راقم نے عرض کیا کہ صحافت کو تو بے باک اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہئے، نوائے وقت کچھ زیادہ ہی طرفداری نہیں کرتا، تو نظامی صاحب نے میرا بغور جائزہ لیا اور کہا، جناب ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم پاکستان کے معاملے میں جانبدار ہیں اور اس جانبداری سے مر کر بھی باز نہیں آئینگے۔ ایوان کارکنان تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ ٹرسٹ اگر آج فعال ہیں تو صرف مجید نظامی صاحب کی کوشش اور ہمت کی بدولت ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی بقا اور نظریہ پاکستان کو اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بنایا ہوتا تو آج ہمارے ملک کے نام نہاد این جی اوز، وہ طبقہ اور روشن خیال اس ملک کو تباہ کر چکے ہیں۔ مجید نظامی صاحب کی وفات سے پاکستان ایک دیدہ ور سے محروم ہو گیا۔ ایک ایسے دیدہ ور سے جو دور سے ہی پاکستان کیخلاف ہونیوالی سازشوں کو بھانپ لیا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف ہوں یا وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف، ہمیشہ انکی خدمات کے معترف رہے۔ مجید نظامی صاحب مشرف دور میں کلوثم نواز سے بھی رابطے میں تھے۔ وہ مسلم لیگ کے ایک عظیم رہنما تھے۔ ظاہری عہدے کے بغیر وہ مسلم لیگ کے روح رواں تھے ۔ نواز شریف کی جلاوطنی کے زمانے میں ایک صحافی بیگم کلثوم نواز کا پیغام لے کر مجید نظامی صاحب کے پاس پہنچا، مجید نظامی صاحب نے اس صحافی کو کہا، میں کس طرح آپ کا شکریہ ادا کروں؟ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا تم نوائے وقت میں نوکری کرو گے، چھوٹے اخبار کے اس صحافی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور وہ ہاتھوں میں اپائٹنمنٹ لیٹر لے کر باہر نکلا۔ وہ مسلم لیگ کیلئے کام کرنے والوں سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔مجید نظامی صاحب آج امر ہو چکے ہیں۔ انکی افکار، انکے نظریات زندہ ہیں، گویا مجید نظامی زندہ ہیں۔