مجھے مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی وفات کا بہت صدمہ ہے۔ ان کے بعد جس عظیم شخص کے مرنے کا دکھ بہت گہرا ہے وہ جنرل حمید گل ہیں۔ وہ مجید نظامی کو اپنے عہد کا سب سے بڑا آدمی سمجھتے تھے۔ وہ ان کے بعد نوائے وقت کے لئے بہت خوش تھے کہ میڈم رمیزہ نظامی بہت جذبے سے معاملات کو آگے لے کے جا رہی ہیں۔ وہ عجیب آدمی تھے۔ بہادر بے پناہ پڑھے لکھے دل اور ایمان کی گواہی میں بات کرنے والے۔ اپنی بات پر ثابت قدم رہنے والے پکے مسلمان سچے پاکستانی اجالے کی طرح اجالے بڑھاپے میں بھی ان کے سراپے پر کسی کمزوری کے آثار نہ تھے۔ وہ گفتگو کرتے تھے تو لگتا تھا کہ جیسے ہماری آرزو کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
میرے خیال میں ڈاکٹر مجید نظامی کے بعد وہ اپنے عہد کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ وہ مکمل سپاہی تھے۔ وہ اس طرح زندہ تھے جیسے جہاد کے میدان میں ہوں۔ وہ مرد میدان تھے۔ مرد مجاہد تھے، مرد وطن تھے، وہ پورے اور سچے مرد تھے اور اس شعبے میں فرد تھے۔ مردانگی کے سارے سلیقے انہیں آتے تھے۔ وہ ڈٹ جانے والے آدمی تھے مگر مزاج کے شرمیلے تھے۔ یہ بہت بڑے کردار کے آدمی کا وصف ہوتا ہے۔ وہ ہیرو تھے۔ کچھ زیرو لوگ کسی مصنوعی ہیرو کے پیچھے پھرنے والے کو بھی ہیرو کہہ دیتے ہیں۔ آج کل کی لڑکیوں کو ہیر کی بجائے حور بننے کا شوق ہے۔ ویسے ایسے لوگوں کے درمیان وہ رات کے پچھلے پہر کے قطبی ستارے کی طرح تھے۔ اس کی روشنی میرے دل میں ہمیشہ رہے گی۔ وہ بہت خوبصورت آدمی تھے ایک مردانہ حسن کی پاکیزہ لہر ان کے چہرے پر وجد کرتی تھی۔ وجد کرنے میں اور رقص کرنے میں ایک غیرمحسوس سا فرق ہے جس کی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔ وجد بھی رقص کی طرح وجود کی ایک ادا ہے۔
ہمارے نامور کالم نگار نصرت جاوید نے ایک مختلف اور بہت محبت بھرا کالم لکھا ہے۔ ”جنرل حمید گل جنٹل مین سولجر“ یہ ان کی شخصیت کی پوری عکاسی کرنے والی بات ہے اور نصرت جاوید کو بات کہنا آتی ہے۔ میرے بھائی اسداللہ غالب نے ان سے آخری ٹیلی فونک بات کی۔ جنرل صاحب نے فون پہلے کر دیا کہ تم مجھے تلاش کر رہے تھے۔ یہ بات جنرل صاحب کو کرنل صاحب برادرم ضرار نے بتائی تھی۔ قصور کے واقعے کے ایک کردار کے جنرل صاحب کی تصدیق اس کالم کا باعث بنی۔ میں بھی لکھ چکا ہوں کہ مبین غزنوی کو جنرل صاحب کے بیٹے عبداللہ گل نے اپنی تنظیم سے نکال دیا تھا۔ ہمیں عالمی طور پر اپنی بدنامی کا خیال ہے مگر جو کچھ ہمارے بے قصور بچوں کے ساتھ درندگی ہوئی اس کا کوئی احساس نہیں ہے؟
خورشید ندیم کے کالم کا عنوان ”ایک نجیب آدمی“ ہے۔ شفقت، شائستگی، نجابت اور لطافت سے بھرپور اس تحریر میں جنرل حمید گل ایسے شخص کے روپ میں سامنے آئے کہ ان کو دیکھنے کے لئے دل کرتا ہے۔ ہم نے ان کے ساتھ جی بھر کے محبت کی۔ انہوں نے بھی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ خورشید نے انہیں عہد ساز کہا۔ میں انہیں عہد آفریں کہتا ہوں۔ ان دونوں لفظوں میں کیا فرق ہے۔ یہ میں اور خورشید ندیم مل کر طے کریں گے۔
مجھے یقین ہے کہ پاکستان کی طرح افغانستان میں بھی ایک نیا خوبصورت اور غیرت مند آزاد زمانہ پیدا ہو گا اور اس کے لیے جنرل ضیاالحق جنرل اختر عبدالرحمن اور جنرل حمید گل کو کسی بھی افغان لیڈر سے بڑھ کر یاد کیا جائے گا۔
نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ اگر جنرل حمید گل کو آرمی چیف بننے دیا گیا ہوتا اور جنرل ضیاالحق زندہ رہتے تو بھارت پاکستان کے آگے سرنگوں ہوتا۔ خالصتان بنتا اور کشمیر خود بخود پاکستان کو مل جاتا۔ اگر افغانستان کے لئے جنرل ضیاالحق اور جنرل حمید گل کی پالیسیوں پر عمل درآمد ہو جاتا تو آج پاکستان اور افغانستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔
جنرل حمید گل پاکستان اور افغانستان کے لیے کمزوری اور مایوسی کی کوئی بات کبھی نہ کرتے۔ انہیں یقین تھا کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ شاید وہ اچھے دن ہمارے ہوتے بھی نہ آئیں مگر آئیں گے ضرور۔ کوئی ان مناظر کو دیکھے گا اور ہمیں یاد کرے گا تو ہم بھی ان اچھے منظروں کو دیکھ رہے ہوں گے۔ میں آج بھی جنرل ضیاءالحق کو عظیم ذوالفقار علی بھٹو کا قاتل نہیں سمجھتا۔ ان کا قاتل وہی ہے جس نے قائداعظم اور مادر ملت کو غیر طبعی موت کا شکار کیا۔ جس نے لیاقت علی خان کو گولی مروائی۔اسی نے بھٹو صاحب جیسے لیڈر کو تختہ دار تک پہنچایا۔ یہ سب جیالے جانتے ہیں مگر سیاسی مصلحتیں انہیں سچ کا سامنا نہیں کرنے دیتیں۔ وہی لوگ جنرل حمید گل کے خلاف باتیں کرتے ہیں وہ ان کاکچھ بگاڑ نہ سکے۔
جنرل حمید گل آخری سانس تک جدوجہد کرتے رہے۔ مجھے دوست معاف رکھیں تو کہوں کہ جنرل حمید گل شہید ہیں جو بھی راہ حق میں کام کرتے ہوئے جان دیتا ہے وہ شہید ہے۔
ان کے جنازے میں سپہ سالار اعلیٰ آرمی چیف جنرل راحیل شریف شریک ہوئے۔ محبوبیت کے جس مقام پر جنرل راحیل شریف ہیں تو میں مایوس نہیں ہوں۔ میں نے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو جنرل راحیل شریف سے محبت نہ کرتا ہو۔ یہ محبت ضرور رنگ لائے گی؟ جنرل حمید گل بے پناہ مطالعے کے آدمی تھے۔ دنیا میں مسلم جدوجہدکی ساری تاریخ پر ان کی نظر تھی۔ وہ پاکستان کو اس مقام پر دیکھنا چاہتے تھے کہ سب قومیں ہماری طرف رشک کی نظروں سے دیکھیں اور ہم جیسا بننے کی خواہش کریں۔
ماموں ڈاکٹر اکبر نیازی سے فون پر بات ہوئی تو وہ جنرل صاحب کے گھر بیٹھے تھے۔ انہوں نے ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو صدیوں کی طرح بیان کیا۔ میں طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ان کے جنازے میں نہ جا سکا۔ میں کبھی اپنے آپ کو معاف نہ کروں گا۔ مجھے انہوں نے کئی بار گھر بلایا پوری فیملی کے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلایا۔ دلیر پاکپاز اور سرگرم بیٹی عظمیٰ گل کو بلا لیا۔ وہ پوری فیملی کے ساتھ میری بیٹی تقدیس نیازی کی شادی میں آئے۔ ان کے ساتھ یادوں کا ایک لشکر ہے وہ اس لشکر کے بھی جرنیل ہیں اور مجھے بھی کبھی کبھی جرنیلی کا اعزاز دیتے تھے۔ خدا کی قسم کسی کے ساتھ فون پر بھی بات کرنے کا اتنا مزا کبھی نہ آیا جو جنرل حمید گل کے ساتھ آیا۔ ہمکلامی اور خود کلامی ایک ہو جاتی تھی۔ یہ دکھ آج کچھ زیادہ ہو گیا ہے کہ آخر وہ کون تھے جنہوں نے اتنے مکمل جرنیل کو آرمی چیف نہ بننے دیا۔ یہ کہ وہ ہمارے سپہ سالار ہیں۔ آج جنرل راحیل کے لئے بھی میرا یہی احساس ہے۔
وہ بہت بڑے دانشور تھے۔ وہ صرف عسکری لیڈر نہ تھے۔قومی لیڈر تھے۔ وہ ایک امید تھے اور یہ امید کسی نوید کی طرح تھی۔ ہمارے فوجی حکمران بھی سیاسی حکمران بن گئے تھے۔ کوئی پاکستانی حکمران ہوتا اس زمانے میں فوجی حکمران جتنا بھی اچھا ہو اچھا نہیں لگتا۔ میں تو جنرل راحیل شریف سے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ آپ براہ راست سیاست میں نہ آﺅ مگر سیاست کو تو راہ راست پر لاﺅ۔ سردار خان نیازی ایک ممتاز صحافی ہیں ان سے بات کرتے ہوئے جنرل حمید گل نے کہا ”یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ ہمارے حکمران بھیڑیے ہیں۔ وہ بھیڑیے نہیں مگر ہم بھیڑیں بن چکے ہیں۔“