لاہور (ساجد ضیا / نیشن رپورٹ) مسلم لیگ ن کی حکومت نے پارٹی کے سابق سینیٹر ظفر علی شاہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں متحدہ کو ڈی سیٹ کرنے کی پٹیشن سے خود کو لاتعلق کرلیا ہے۔ حکومت اور دیگر پارٹیوں کی حمایت سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن متحدہ کے ارکان اسمبلی کو اسمبلیوں میں واپس لانے کی کوشش کررہے ہیں مگر دوسری جانب حکومتی پارٹی کے رہنما ظفر علی شاہ نے سپریم کورٹ میں متحدہ کے ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کی درخواست دے دی ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کو ڈی سیٹ کرنے کی اپنی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ سے مسترد کئے جانے کیخلاف ایک الگ پٹیشن بھی سپریم کورٹ میں دائر کررکھی ہے۔ متحدہ نے 12 اگست 2015ءاور تحریک انصاف نے 21 اگست 2014ءکو استعفے دیئے تھے۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ظفر علی شاہ نے نجی حیثیت سے پٹیشن دائر کی ہے، اس کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ نہ تو پارٹی کے پارلیمنٹرینز ہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی عہدہ ہے۔ ان کے اقدام کا پارٹی پالیسی سے تعلق نہیں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ان ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے پر حکومت کا طرز عمل کیا ہوگا، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا اس بارے میں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ صورتحال دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کیا جاسکے گا۔ انہوں نے کہا ظفر علی شاہ نے ایسی ہی پٹیشن تحریک انصاف کے حوالے سے عدالت میں دائر کی تھی جس میں پی ٹی آئی ارکان کی ڈی سیٹنگ مسترد کردی گئی تھی۔ اب ایم کیو ایم پر بھی یہی اصول لاگو ہوگا۔ اس سوال پر کہ سپیکر نے پی ٹی آئی کے برخلاف متحدہ کے ارکان کے استعفوں کی فوری تصدیق کیوں کی۔ انہوں نے کہا یہ اتنی سادہ بات نہیں ہر رکن اسمبلی کا نمائندہ ہے اور اسے ڈی سیٹ کرنے سے پہلے دیگر پہلوﺅں کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے ارکان استعفے دینے میں سنجیدہ نہیں تھے اور انہوں نے جاوید ہاشمی کی طرح فلور پھر کھل کر استعفیٰ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ دوسری طرف ظفر علی شاہ نے ”دی نیشن“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر نے استعفے قبول نہ کرکے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ انہوں نے کہا میں نے ایک شہری کے طور پر عوامی مفاد میں عدالت سے رجوع کیا ہے۔
مسلم لیگ لاتعلقی