جواہر لال نہرو چانکیا کو ہندوستانی میکاولی achiavelli) (Mمانتے تھے۔ اسی لیے دہلی میں نہرو کے زمانے میں غیرملکی سفارت خانوں کیلئے جو علاقہ مخصوص کیا گیا اس کا نام چانکیاپوری رکھاگیا۔یکم ستمبر 1956کو جب امریکی سفارت خانے کی بنیاد چانکیاپوری میں رکھی گئی تو امریکی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے چانکیا کو ہندوستانی تاریخ کا عظیم اور پہلا ڈپلومیٹ قرار دیاتھا۔ چانکیا کا سیاسی فلسفہ یہ تھا کہ طاقت کی ہوس اور ہمسایہ ممالک کی فتح کے جذبے کو قائم رکھو، ہمسایہ ریاستوں کو ہمیشہ دشمن ریاستیں تصور کرو اور ان ہمسایہ ریاستوں کی حکومتوں سے ہمیشہ دوستی اور اشتراک کے سلسلے کو آگے بڑھاؤ تاکہ ریاست کی بالادستی قائم رہے ۔ ضرورت پڑنے پر ہمسایوں سے دوستی کے جذبات محض ہمسایہ ریاستوں کو دھوکے میں رکھنے کیلئے استعمال کرو اور موقع ملتے ہی وار کرو۔ وہ ایک بے اصول آدمی تھا ۔ چانکیا کا خیال تھا کہ اگر دشمن کو شکست دینے کیلئے فریب ،ریاکاری اور تباہی و بربادی کے طریقوں سے کام لینا ضروری ہے تو ان سے یقینا کام لینا چاہئے۔ چانکیا کے فلسفہ نے دھوکے کی سیاست کو فروغ دیا۔نہ صرف جواہر لال نہرو اس فلسفہ کی تائید کرتے تھے بلکہ انکے بعد آنیوالے تمام بھارتی حکمرانوں نے بھی اس فلسفہ کو اپنایااور آج بھی یہ ہی فلسفہ بھارت کی اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول ہے۔
جب سقوط ڈھاکہ کے مجرم نے گزشتہ سال دورہ بنگلہ دیش کے دوران بحیثیت بھارتی وزیراعظم اپنے جرم کا ’’سرکاری اعتراف‘‘ــ ـ کیا تو کسی کویہ معلوم نہ تھا کہ چانکیا کا یہ پیروکار آنیوالے دنوں میں اوربھی جرائم کا اقرار کرکے ایک بین الاقوامی مجرم کے روپ میں دنیا کے سامنے آئیگا۔بنگلہ دیش میں اپنے خطاب کے دوران نریندر مودی نے اقرار کیا تھا کہ بھارتی فوج نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان میں مظالم ڈھائے اور بنگلہ دیش کے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مدد کی تھی۔مودی کے بیان سے ثابت ہو گیاتھا کہ کہ مشرقی پاکستان میں حالات خراب کر نے میں مسلح گروہوں کو بھارتی مدد حاصل تھی۔یہ اعتراف جرم انہوںنے سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بنگلہ دیش کی آزادی میں اہم کردار ادا کرنے پر ’’بنگلہ دیش لبریشن وار آنر‘‘ کا ایوارڈ دیئے جانے کے موقع پر کیا تھا۔ مودی نے واجپائی کیلئے اس جنگی ’’جرائم ‘‘ کے ایوارڈ کو بنگلہ دیش کے صدر عبدالحمید سے وصول کیا تھا۔
بھارت کی دہشتگردی کی داستان مشرقی پاکستان سے لیکر بلوچستان تک پھیلی ہوئی ہے۔دہلی کے لال قلعہ میں یوم آزادی کی مرکزی تقریب سے 15اگست کوبھارتی وزیر اعظم نے اپنی سیاسی تاریخ کا طویل ترین خطاب کیا جو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے جاری رہا۔مودی کا یہ خطاب اپنی حکومت کی کارکردگی اور خارجہ امور کے بجائے پاکستان پر تنقید پر مبنی تھا اور ان کا کہنا تھا کہ ’’گزشتہ چند دنوں کے دوران بلوچستان، گلگت اور آزاد کشمیر کے لوگوں نے میرا شکریہ ادا کیا، میں بھی ان کا ممنون ہوں‘‘۔ بھارتی وزیراعظم نے اپنے بیان میں بلوچستان کا ذکر کرکے اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی سرگرمیوں سے متعلق پاکستان کے مؤقف کی کھلے عام تائیدکردی۔ مودی نے اقتدار میں آنے سے پہلے ہی پاکستان کیخلاف جارحانہ رویہ اختیارکر لیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد گذشتہ ڈھائی برس میں انھوں نے جو پالیسی اختیار کی اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔ وہ بات چیت کے راستے خود ہی کھولتے اور بند کرتے رہے۔بھارت میں آئندہ چند مہینوں میں اتر پردیش، پنجاب اور گجرات کی ریاستوں میں انتخابات ہونیوالے ہیں۔ ممکن ہے کہ مودی نے یہ نئی حکمت عملی اپنے بیزار ہوتے ہوئے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اختیار کی ہو۔آنیوالے دنوں میں مودی کی اس نئی حمکت عملی کے بارے میں کچھ واضح ہو سکے گا۔ لیکن بادی النظر میں مودی نے مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال سے عالمی برادری کی توجہ ہٹا کر توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑنے کی ایک ناکام اور بھونڈی کوشش کی ہے۔ مودی کومقبوضہ کشمیر کی صورتحال اور پاکستان کے حوالے سے نہ صرف بھارت میں اپنے سیاسی حریفوں کی تنقید کا سامنا ہے بلکہ بھارت کے چیف جسٹس نے بھی مودی کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔مودی کا بلوچستان پر بیان بھارت کی بلوچستان میں دہشتگردی کا کھلا اعتراف ہے۔ ’’را‘‘ ایک عرصے سے بلوچستان میں حالات خراب کر رہی ہے۔ کل بھوشن یادیو کی گرفتاری کے بعد بھارت حواس باختہ ہوچکا ہے۔ کل بھوشن نے پاکستان میں دہشت گردی کا اعتراف کیا۔جو بات پہلے پاکستان کہتا تھا اب بھارت کے وزیر اعظم نے خود اسے تسلیم کر لیا۔
مودی نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا بلوچستان کے حالات سے موازنہ کرنے کی کوشش کی جبکہ تاریخی حقائق بالکل اسکے برعکس ہیں۔ کشمیریوں نے پاکستان کے قیام سے ایک ماہ قبل جولائی 1947 میںپاکستان کے ساتھ الحاق کی قرارداد منظور کر کے دنیا پر یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ بھارت کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیںاور بھارتی تسلط سے آزادی کی جنگ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں جاری ہے جبکہ بلوچستان کی ریاستوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا اور پاکستان کا حصہ بن گئیں۔ آج ان ریاستوں پر مشتمل صوبہ بلوچستان وفاق پاکستان کی ایک اہم اکائی ہے۔ بھارت کے زیرتسلط کشمیریوں کا استحصال ہو رہا ہے جبکہ بلوچستان میں امن کی بات ہو رہی ہے اور اس امن کو سبوتاژ کرنے میں بھی بھارت ہی کا ہاتھ ہے۔ بھار ت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ کشمیر کا مسئلہ گولیوں سے حل نہیں ہوسکتا۔اسکے سیاسی حل کی ضرورت ہے جس کیلئے پاکستان کیساتھ سنجیدہ مذاکرات کرنے ہونگے۔ پاکستان نے بھارت کو کشمیر پرمذاکرات کی با ضابطہ دعوت دے دی ہے اب بھارت کا رویہ اسکے عزائم کی عکاسی کریگا۔ اگلے ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کاسالانہ اجلاس نیو یارک میں منعقد ہو رہا ہے۔ اگر بھارت نے پاکستان کی دعوت کا مثبت جواب دیا تو وزیر اعظم نواز شریف اور وزیر اعظم نریندر مودی کی اس موقع پر ملاقات دونوں ممالک کے درمیان تعطل کے شکار مذاکرات کی بحالی کا سبب بن کر اس خطہ کو چانکیا کے سیاسی فلسفہ سے نجات دلانے میںاور امن کی جانب ایک مثبت قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
قارئین کرام! چانکیانے سیاست پر ایک کتاب ’’ ارتھ شاستر‘‘ لکھی تھی جس میں چندرگپت کے حالات کو قلمبند کیا گیاہے۔اس کتاب میں چانکیا نے لکھاہے کہ کبھی بھی طاقت ورپڑوسی ریاست سے پنجہ آزمائی مت کرو اور اپنے پڑوسی کی پڑوسی ریاست سے تعلقات اچھے رکھو۔آج بھارت کے پاکستان سے تعلقات خراب ہیں لیکن پاکستان کے پڑوسیوں افغانستان، ایران اور چین ، جوایک مضبوط ریاست ہے، سے اس نے تعلقات بہتربنارکھے ہیں ۔ یہی فلسفہ بھارتی خارجہ پالیسی کی اساس ہے۔ جب تک بھارت اس فلسفہ کو رد کر کے برابری کی سطح پر پاکستان سے کشمیر سمیت تمام امور پربات چیت شروع نہیں کرتا، اس خطہ میںامن قائم نہیں ہو سکتا۔