قانون کی حکمرانی ایک خواب

کہتے ہیں اقتدار کا نشہ برا ہوتا ہے ایک بار کسی کے ہاتھ لگ جائے تو لوگ جئیں یا مریںجسے مل جائے کون چھوڑتا ہے ۔پاکستان میں تو نہیںالبتہ دنیا بھر میں دیکھا جائے تو آج کے دور میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب کسی مقتدر شخص نے اپنے اصولی مئوقف کی خاطر ، کسی سانحے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ، قانون کی خلاف ورزی پر ، عوامی احتجاج پر یا ٹیکس چوری جیسے واقعات پر اپنے اقتدار کو خیر باد کہنے میں دیر نہ کی ہو۔ حال ہی میں سویڈن کی کم عمرترین وزیر عائدہ نے شراب نوشی کی حالت میں ڈرائیونگ کرتے ہوئے پکڑے جانے پر نہ صرف بلا تاخیر اعتراف جرم کیا بلکہ احساس ندامت میں اسے زندگی کی سب سے بڑی خطاء قرار دیتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دیدیا۔ انکے پاس اعلیٰ تعلیم کا قلمدان تھا۔ انہیں اس جرم میں چھ ماہ تک سزاء بھی ہو سکتی ہے۔ پنامہ پیپرز سکینڈل میں نام آنے پر آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمندر گن لاگس اور اسپین کے وزیر صنعت جوز مینوئل سوریا مستعفی ہو چکے ہیں۔سویڈن کی کلچرل وزیر سیسیلیا سٹیگو چلو ٹیلی ویژن لائسنس فیس کی عدم ادائیگی کا اعتراف کرتے ہوئے اور وزیر صنعت ماریہ بورلیس ٹیکس حکام کو مطلع کئے بغیر آیا رکھنے کے قصور میں پہلے ہی مستعفی ہو چکی ہیں ۔سویڈن کے وزیر ہائوسنگ محمت کاپلان کو اسرائیل کے خلاف بیان بازی مہنگی پڑی ۔انہوں نے فلسطین پر اسرائیلی مظالم کو یہودیوں کے ساتھ نازی جرمن رویے سے تشبیع دی جس پر انہیں عوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑا اوربالآخر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔اپریل 2014ء میں جنوبی کوریا کا جہاز ڈوب گیا ۔جہاز میں تین سو کے قریب مسافر سوار تھے جن میں زیادہ تر ہائی سکول کے بچے تھے۔ حادثے میں اکثر لوگ جاں بحق ہوگئے ۔وزیر اعظم چنگ ہانگ ون جائے حادثہ کے قریب واقع جزیرہ پر پہنچے ان کی کا ر کو لوگوں نے گھیر لیا اور ریسکیو کے حوالے سے حکومتی انتظامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔ وزیر اعظم عوامی احتجاج پر سرنگوںکرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔پاکستانی نژاد برطانوی شہری سعیدہ وارثی نے غزہ پر اسرائیلی مظالم کے باوجود برطانوی حکومت کی خاموشی پر وزارت سے بطور احتجاج استعفیٰ دے دیا تھا۔اب ریفرنڈم میں یورپی یونین سے علیحدگی کے عوامی فیصلے کے احترام میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے عہدے سے مستعفی ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر رچرڈنکسن واٹر گیٹ سکینڈل کیوجہ سے عوامی سپورٹ سے محروم ہوئے اور مواخذے کے امکانات کو بھانپتے ہو ئے وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔ انہیں کسی قسم کی پراسیکیوشن کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ امریکی صدر بل کلنٹن کو جنسی سکینڈل میں صدارت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ یہ تسلیم ہے کہ مستعفی ہونے کی بجائے اگر یہ شخصیات اقتدار پر براجمان رہنے کا فیصلہ بھی کرتیں تو زیادہ تر امکان یہی ہوتا کہ سسٹم انہیں فارغ کر دیتا۔اسکے باوجود ماننا پڑیگا کہ جب سسٹم میں چیک اینڈ بیلنس ہوتا ہے تو پھر قانون سے بالا کوئی نہیں ہوتا قانون سب پر لاگو ہوتا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے نظام میں کوئی شک نہیں۔لیکن قانون کی حکمرانی وہاں ہوتی ہے جہاں حکمرانوں کو عوام کا احساس ہو اور جہاں عوام کو بھی اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے حوالے سے آگہی ہو۔ مگر جہاں اقرباء پروری اور جہالت کوئی جرم ہی نہ ہو ، لالچ، رشوت و بد عنوانی کے ساتھ ساتھ بے حسی اپنے عروج پر ہووہاں قانون کی حکمرانی ایک خواب ہی رہتا ہے اور جب تک قانون کی حکمرانی کا نظام نہ ہو حکمرانوں کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہوتا۔ ایک ہی چیز حکومت عوام کو دے سکتی ہے اور وہ ہے قانون کی حکمرانی اگر قانون کی حکمرانی نہیں تو عوام کی حیثیت ایک بھکاری سے زیادہ نہیں ۔ باعزت روٹی ، کپڑا، چھت، تعلیم، صحت، روزگار بلحاظ قابلیت، سیکورٹی، میرٹ اور انصاف عوام کی بنیادی ضروریات ہیں۔ میرٹ اور انصاف نہ ہو تو عوام کو باعزت روٹی کپڑا اورمکان میسر ہو سکتا ہے نہ تعلیم،روزگار اور صحت کی سہولیات بلکہ عوام کا ظلم و زیادتی کا نشانہ بنے رہنا فطری امر ہے۔قومی دولت اور ملکی وسائل پر عوام کا اتنا ہی حق ہے جتنا حکمران کامگر قانون کی حکمرانی کے بغیر عوام کو یہ حق ملنا تو دور کی بات ہے عوام کے جان و مال کا تحفظ بھی ممکن نہیں اور جب تک عوام کا یہ حق عوام سے دور ہے ملکی وسائل کی بندر بانٹ ہوتی رہے گی۔ اب اگر اپنے گھر کی خبر لی جائے تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں قانون کی حکمرانی کا تصور بھی نا ممکن نظر آتا ہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا تصور ناممکن کیوں ؟جواب انتہائی مختصر یہ ہے کہ اگر یہاں قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے تو چند ہزار خاندانوں پر مشتمل مراعات یافتہ طبقہ جو ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹنے کا عادی ہے وہ براہ راست قانون کی گرفت میں آنے سے نہیں بچ سکتا۔ انہیں یہ منظور نہیں کہ ملک کا کوئی ادارہ ان سے کالے دھن کا حساب پوچھے۔ انہیں یہ منظور نہیں کہ کوئی ان سے مظلوم کے خون کا حساب مانگے۔انہیں یہ وارے میں نہیں کہ عام آدمی انکے برابر آن بیٹھے۔انہیں یہ منظور نہیں کہ کوئی ان سے خیرات کی بجائے حقوق کا تقاضا کرے۔یہ طبقہ قومی وسائل پر سانپ بن کر بیٹھا ہوا ہے اسے منظور نہیں کہ کوئی ان وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات چھیڑنے کی جرأت کرے۔یہاں عادلانہ نظام نافذ ہوتا ہے تو مراعات یافتہ طبقہ جو ملک میں سیاہ و سفید کا مالک ہے مراعات سے محروم ہو جاتا ہے۔لہٰذا یہاں قانون کی حکمرانی ایک خواب ہے جس کے شرمندہء تعبیر ہونے کا کوئی ٹائم فریم نہیں۔

ای پیپر دی نیشن