اب کے برس 14 اگست کا یوم آزادی ایک ایسے موقع پر ظہور پذیر ہوا جب وطن عزیز کے افق پر قومی سلامتی کے سائے مختلف چیلنجز کی صورت میں ایک عجیب سی کیفیت غیر یقینی صورتحال اور پریشانی کا عالم پیدا کئے ہوئے تھے۔ سابق وزیراعظم جناب میاں محمد نواز شریف نے جی ٹی روڈ کے راستہ پر ایک بہت بڑی عوامی ریلی کی صورت میں لاہور واپسی کا اعلان کر رکھا تھا جو سپریم کورٹ کے پانامہ کیس کے فیصلہ کے بعد مسلم لیگ نون کی بے پناہ عوامی ہر دلعزیزی اور قوت کا نہ صرف آئینہ ہو بلکہ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عوامی احتجاج کا بھی ایک بے مثال مظاہرہ پیش کرے۔ اس گرینڈ شو کی منصوبہ بندی کرنے والے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نون کی مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی اس پروگرام کی تفصیلات طے کرنے میں ہمہ تن مصروف تھیں۔ اسکے باوجود 3 روزہ ریلی اور روڈ مارچ 4 روز کا طول پکڑ گئے اور جب یہ جگہ جگہ استقبالی جلوسوں کو خطاب کرنے کے بعد بالآخر داتا صاحب دربار پہنچے تو اس گرینڈ ریلی کی چوتھی شام ہو چکی تھی جس کے فوراً بعد لاہور کے علاوہ پورے ملک و قوم نے اپنے 70 ویں یوم آزادی کے جشن کا پورے جوش و جذبہ سے استقبال کیا۔ عوام نے مختلف سیاسی پارٹیوں کی دعوت پر ملک بھر کے تمام بڑے شہروں میں تمام صوبوں بشمول آزاد کشمیر و شمالی علاقہ جات گلگت و سکردو میں آزادی کے جشن منائے اور شاندار آتش بازی کا ہر جگہ پر زور مظاہرہ کیا۔ ان تمام تقریبات میں دو نکات خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اول: صدر پاکستان کا اسلام آباد میں قومی پرچم کی نقاب کشائی اور خطاب او ر اس کے علاوہ واہگہ بارڈر پر چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے ایشیاء میں سب سے بلند ترین اور بڑے سائز کے ہلالی پرچم کی پرچم کشائی کی۔ 14 اگست سے پہلے بعض سیاسی جماعتوں نے 13 اگست کو بھی سیاسی دھرنے جلسے اور بڑے اجتماعات کے کئی جگہوں پر مظاہرہ کئے۔ جن میں عمران خان کی تحریک انصاف ڈاکٹر طاہر القادری کی عوامی تحریک سراج الحق کی جماعت اسلامی کا جلسہ اور شیخ رشید کی طرف سے عوامی مسلم لیگ کا راولپنڈی میں جلسہ شامل ہیں۔ اس طرح جشن آزادی سے پہلے ملک کی سیاسی فضا نے سابق وزیراعظم نے جی ٹی روڈ پر جو ہلچل کا سماں پیدا کیا تھا وہ جشن آزادی کے جوش و خروش ختم ہو جانے کے بعد بھی پاکستان کی پوری فضا پر پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے متفقہ فیصلہ کے بعد بھی ملک کی فضا پر ایک GATHERING STORM کی صورت میں بدستور جاری و ساری ہے۔ سابق وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ وہ ووٹ کے تقدس کے ایشو پر ہر صورت اور ہر قیمت پر اپنی جدوجہد کی مہم جاری رکھیں گے۔ اگرچہ قانون اور عدلیہ کی بالادستی تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے اپنی DISQUALIFICATION کو تسلیم کر لیا ہے لیکن وہ پانچ رکنی بنچ کے معزز جج صاحبان کا یہ اختیار تسلیم کرنے سے اختلاف رکھتے ہیں کہ کروڑوں عوام کے منتخب ویراعظم کے مینڈیٹ کو پانچ فاضل ارکان اپنی ایک جنبش قلم سے برطرف کردے۔ چنانچہ اس بارے میں اس ایڈجسٹمنٹ کیخلاف نہ صرف REVIEW PETITION فائل کر دی گئی ہے بلکہ ایک اور علیحدہ پٹیشن میں التماس کیا گیا ہے کہ اس فیصلہ پر مزید عمل درآمد روکنے کیلئے STARY ORDER بھی جاری کیا جائے۔ بہت سے قانونی حلقوں اور بار کونسلز کی رائے میں جناب سابق وزیراعظم ان کے رفقاء اور موجودہ کابینہ کے بعض سینئر وزراء نے جی ٹی روڈ ریلی کے چار روزہ دورانیہ اور اسکے بعد اعلیٰ عدلیہ اور آرمڈ فورسز کو بل واسطہ یا بلاواسطہ ہدف بناتے ہوئے ان دو قومی اداروں پر کڑی تنقید اور سازشوں کا جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے اس کو قومی سلامتی کے حالیہ حالت جنگ کے ماحول میں نہ صرف نا مناسب بلکہ اعلیٰ ترین قومی مفاد کے منافی قرار دیا ہے بعض افراد کی طرف سے اخباری رپورٹوں کے مطابق قانونی کارروائی کرنے کا بھی متعلقہ عدالتوں سے رجوع کیا گیا ہے۔ ان حلقوں کا موقف ہے کہ افواج پاکستان ملک کی سرحدوں کی حفاظت قومی سلامتی کی نگہداشت اور بوقت ضرورت ملک کو درپیش کسی حوادث یا بحران کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہوتی ہیں۔ اسی طرح اعلیٰ عدلیہ بھی ملک میں قانون کے نفاذ اور عدلیہ کی بالادستی کا ایسا ادارہ ہے جسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کیلئے ہر پاکستانی عدلیہ کے ساتھ کھڑا ہے اور ہر ادارہ عدلیہ کے احکامات پر بلاچوں چراں عملدرآمد کرنے کا پابند ہے جو لوگ یا حلقے افواج یا عدلیہ پر بے جا الزامات لگا کر عوام کو ان کیخلاف بھڑکاتے ہیں انکے فرائض کی ادائیگی میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں یا عوام کو ان اداروں کیخلاف اٹھ کھڑا ہونے پر آمادہ کرتے ہیں قانون کو آئین کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے مناسب قانونی اقدامات لینا چاہئے۔
ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے اپنی حفاظت کیلئے امداد مانگی تھی۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ حالات ماضی میں دفن ہو چکے ہیں لیکن کبھی کبھی بعض عناصر اب بھی ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی طرح اپنی آستین چڑھا کر عوام کو بغا وت پر اکسانے سے باز نہیں آتے تھے جس پر مجبوراً قانون نافذ کرنیوالے اداروں کو ان کی زبان بندی کرنی پڑی۔ اس موقع پر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ہماری افواج نے دفاع وطن میں بے مثال قربانیاں دی ہیں بعض عناصر جوش میں آ کر ان قربانیوں کو فراموش کرنے کا حیلہ بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں اور اس طرح یہ سلسلہ الزام تراشی افواج پاکستان کیخلاف کسی نہ کسی طرف سے آج بھی جاری ہے۔ جس سے ملک و قوم کا نا قابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ باہمی رنجشیں دور کرنے کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی کا فرض منصبی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں ایسی مثبت LEGISLATION لانے کی راہ ہموار کریں جس سے CONFLICT OF INTEREST کا خاتمہ ہو۔ پبلک نمائندوں اور سرکاری آفیسران میں جرائم پیشہ افراد اور کسی قسم کے مافیا کا اثر و رسوخ کا خاتمہ ہوناچاہئے۔ سیاسی پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے اندر جمہوریت کو فروغ دینے کی سنجیدگی سے کاوش کرتے ہوئے DYNASTIC رجحانات کی حوصلہ شکنی بلکہ خاتمہ کریں تاکہ اس کے لئے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے مناسب قانون دانی حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ وطن عزیز میں قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ دفاع وطن ہی جشن آزادی کا سب سے اہم تقاضا ہے اور موجودہ جلسے جلوس مال روڈ جی ٹی روڈ اور دیگر شاہراہوں پر دھرنوں کی بجائے عوام کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ یعنی گڈ گورننس کے قیام کیلئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کرنا قائداعظم کا ویژن تھا جو آج بھی موجودہ حکومت اور حکمرانوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ یعنی ایک جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کا قیام یہی موجودہ جشن آزادی کا درس ہے۔ پاکستان زندہ باد۔
یوم جشن آزادی اور قومی سلامتی کے چیلنجز
Aug 18, 2017