سندھ منی لانڈرنگ کیس میں الیکشن سے قبل آصف زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا اور اگلی پیشی پر جب آصف زرداری کے وکیل نے عدالت سے استفسار کیا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تو ایسا کوئی آرڈر نہیں دیا کہ انکے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔ نگراں وزیرداخلہ سے جب سینٹ میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم نامے کی وجہ سے آصف زرداری اور فریال تالپور کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔ سندھ منی لانڈرنگ کیس میں اب 15 اگست کی تاریخ پر کیس میں نامزد ملزمان معروف کاروباری شخصیت انورمجید اور انکے بیٹے عدالت میں پیش ہوئے تو ایف آئی اے نے انکی گرفتاری کی اجازت مانگی تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ ہم گرفتاری کا نہیں کہیں گے اور انہوں نے کہا کہ جس طرح آصف زرداری اور فریال تالپور تحقیقات میں تعاون کررہے ہیں اسی طرح آپکو بھی تحقیقات میں تعاون کرنا چاہئے۔ انور مجید کے وکلاءکے استفسار پر ایک بار پھر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو انور مجید اور بیٹوں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ حکومت نے پہلے ہی انورمجید اور انکے بیٹوں کے نام ای سی ایل میں ڈال رکھے ہیں اور تحقیقاتی اداروں و عدلیہ نے جب بھی انہیں طلب کیا ہے وہ پیش ہورہے ہیں ۔ ابھی معاملہ ویسے بھی تحقیقاتی مراحل میں ہے اور چیف جسٹس عندیہ دے چکے ہیں کہ کیوں نہ پانامہ طرزکی جے آئی ٹی بنادی جائے تو اس مرحلے پر ایف آئی اے کی جانب سے معمرانورمجید اور انکے بیٹے کی گرفتاری کا عمل درست نہیں کیونکہ وہ ویسے بھی ملک سے باہر نہیں جاسکتے تھے۔
طریقہ کارتو یہ ہونا چاہئے تھا کہ پہلے تحقیقات ہوتیں پھر اگر جے آئی ٹی بنانی ہے تو اس کا قیام عمل میں آتا اور اگر جرم ثابت ہوجاتا تو پھر گرفتاری کی نوبت آتی لیکن ایک ایسا کیس جس میں نامزد افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم ہی چیف جسٹس نے نہیں دیا لیکن حکومت کی طرف سے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیئے گئے ہیں تو پہلے تحقیقات کرلیں اور اگر نامزد افراد تعاون نہ کریں تو عدالت کی اجازت سے گرفتاری ہونی چاہئے لیکن یہاں الٹا نظام چل رہا ہے اور میڈیا ٹرائل کے ذریعے پکڑیاں اچھالی جارہی ہیں۔ معمرشخص کو مکمل تعاون کے باوجود عدالت کی اجازت کے بغیر عدالت کے احاطے سے گرفتارکرلینا درست عمل نہیں ہے۔
15 اگست کو ہی چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانامہ جے آئی ٹی میں عسکری ایجنسیوں کے لوگ چوہدری نثار نے شامل کئے تھے لیکن چوہدری نثار نے اسکی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میرا پانامہ جے آئی ٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا اور پانامہ کیس کے بنچ کے پاس ہی جے آئی ٹی بنانے کے اختیارات تھے اور عدالت نے خود ہی جے آئی ٹی بنائی تھی۔ اس بیان نے چودھری نثار اور لیگی قائدین کے مابین اختلافات مزید شدت اختیار کر سکتے تھے باایں ہمہ چیف جسٹس نے وضاحت کر دی کہ ان کا روئے تحاطب دان لیک کی جے آئی تھا۔
میاں نوازشریف 3 بار پاکستان کے وزیراعظم بنے ہیں اور ان کی ملک کیلئے گرانقدر خدمات ہیں۔ 1998ءمیں جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کئے تو یہ میاں نوازشریف ہی تھے جنہوں نے تمام تر عالمی دبا¶ اور لالچ کو پس پشت ڈال کربھارت کے ایٹمی دھماکوں کا منہ توڑ جواب دیا اور امریکہ کی جانب سے دھمکیوں اور لالچ کو یکسر نہ صرف مسترد کردیا بلکہ اس کے نتائج کیلئے بھی قوم کی رہنمائی کی۔ میاں نوازشریف نے ہی پشاور تا کراچی موٹروے تعمیر کرائی اور تاحال اس پرکام جاری ہے۔ جب میاں نوازشریف کی 2013ءمیں حکومت آئی تو اس سے قبل ملک بدامنی کا شکار تھا اور ملک بھر میں دھماکے اور دہشت گردی روز کا معمول بن چکا تھا۔
کراچی تا خیبر ہر شخص خود کو غیر محفوظ سمجھتا تھا۔ کراچی میں روزانہ درجنوں لاشیں گرتی تھیںاور آئے روز ہڑتالوں سے معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔نوازشریف نے ہر طرح کی دہشتگردی کیخلاف آپریشن کا آغاز کیا اور ہماری سیکورٹی فورسز نے بہت ہی مختصر وقت میں ملک بھر میں امن قائم کیا اور سرزمین پاکستان دہشت گردوں کیلئے تنگ ہوگئی ۔ نوازشریف نے چین سے بھاری سرمایہ کاری کا ”سی پیک“ معاہدہ کیا جس سے خطے میں ترقی کے نئے دور کا آغازہونے جارہا ہے۔
گزشتہ دنوں نیب کیس کی سماعت پر میاں نوازشریف کو بکتربندگاڑی میں اس طرح لایا گیا جیسے خدانخواستہ وہ کوئی دہشتگرد ہوں۔3 بار وزیراعظم رہنے والی شخصیت کو اس طریقے سے عدالت لانا افسوسناک ہے جبکہ ان کو چھوٹی عدالت نے سزا دی ہے جس پر اپیلیں زیرسماعت ہیں۔ عدالتی حکم میں واضح ہے کہ نوازشریف پر استغاثہ کرپشن ثابت نہیں کرسکا۔اسی لئے معروف قانون دان اس سزا کو غلط تصور کرتے ہیں۔
پاکستان میں سینکڑوں لوگوں کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں اور انکی ضمانتیں بھی ہوجاتی ہیں۔ میاں نوازشریف اور فیملی پر خدانخواستہ قتل کا تو کوئی الزام نہیں لیکن انہیں قید تنہائی میں رکھا جارہا ہے اور وہ نماز بھی اپنے سیل میں ہی پڑھتے ہیں جبکہ مریم نوازسے انکی ملاقات ہر ملاقات کے دن ہی کرائی جاتی ہے۔
سیاسی اتار چڑھاﺅ
Aug 18, 2018