اسلام آباد (جاوید صدیق) ملک کے نئے وزیراعظم کا گزشتہ روز قومی اسمبلی میں انتخاب بڑے تلخ اور ہنگامہ پرور ماحول میں ہوا۔ جب سپیکر نے قائد ایوان کے انتخاب کے نتائج کا اعلان کیا تو مسلم لیگ (ن) کے ارکان شہباز شریف کی قیادت میں نومنتخب وزیراعظم عمران خان کے سامنے آ کر اشتعال انگیز نعرے لگانے لگے۔ ان نعروں میں ”ووٹ چور نامنظور“ ووٹ کو عزت دو‘ وزیراعظم نواز شریف کے نعرے شامل تھے۔ احتجاج کرنے والے مسلم لیگی ارکان نے نواز شریف کی تصویر بھی اٹھا رکھی تھی۔ نعرے لگانے والے لیگی ارکان میں پنجاب کے سابق وزیر قانون رانا ثناءاﷲ نمایاں تھے۔ اس احتجاجی ہجوم نے قائد ایوان وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کو تقریر نہ کرنے دی اور اس میں خلل ڈالتے رہے۔ عمران خان اس تقریر کے دوران پی ٹی آئی کے ارکان کے حصار میں رہے۔ جب اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تقریر شروع کی تو ان کو ن لیگی ارکان اسمبلی نے اپنے حصار میں لئے رکھا۔ عمران خان نے مربوط تقریر تو نہ کی لیکن انہوں نے (ن) لیگ کے احتجاج کے جواب میں کہا کہ جو مرضی کر لیں ہم کوئی این آر او نہیں ہونے دینگے۔ ہم ملک کی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کریں گے۔ بیرون ملک پڑی دولت واپس لائیں گے۔ اپنی جوابی تقریر میں شہباز شریف نے 2018 ءکے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات کرانے کے لئے پارلیمانی تحقیقاتی کمشن بنانے اور اس کمشن کی رپورٹ تیس دن میں ایوان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ وہ یہاں دھاندلی زدہ الیکشن کو تحفظ دینے نہیں آئے بلکہ وہ جمہوری نظام کو بچانے کے لئے ایوان میں آئے ہیں۔ اس کے ساتھ شہباز شریف نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر پارلیمانی کمشن نہ بنایا گیا تو ہم سڑکوں پر احتجاج کرینگے۔ ملک کے نئے وزیراعظم کا انتخاب جس شور شرابے اور احتجاج کی فضاءمیں منعقد ہوا اس کے مستقبل میں جاری رہنے کے امکانات نہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ قومی اسمبلی کا یہ اجلاس ہنگامہ خیز ہو گا۔ قائد ایوان کے انتخاب کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے انگریزی زبان میں بڑی موثر تقریر کی۔ بلاول نے شہباز شریف کے م¶قف کی حمایت کی۔ 25 جولائی کے انتخابات دھاندلی زدہ تھے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ ان انتخابات میں ساری جماعتوں کے لئے Level Playing فیلڈ نہیں دیا گیا تھا۔ آر ٹی ایس فیل ہوا‘ پولنگ ایجنٹوں کو نکال باہر کیا گیا۔ فارم 45 اب تک پولنگ ایجنٹوں کو نہیں دیئے گئے۔ بلاول نے وزیراعظم عمران خان کو ملک کا وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارک باد دی لیکن ساتھ ہی خبردار کیا کہ ”خان صاحب ہم دیکھیں گے کہ آپ ایک سو دنوں میں ایک کروڑ نوکریاں پچاس لاکھ گھر کیسے دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو نے خان صاحب کی حکومت کو درپیش معاشی چیلنجز کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ خان صاحب نے کہا ہے کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تو ہم یہ دیکھیں گے کہ وہ معیشت کو کس طرح بہتر کرتے ہیں۔ بلاول نے خارجہ پالیسی خاص طور پر ہمسایہ ملکوں سے تعلقات بہتر بنانے اور پاکستان پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے لگے لیبل کو اتارنا بھی بڑا چیلنج ہے۔ خان صاحب نے حکومت تو سنبھال لی ہے لیکن انہیں جہاں معاشی اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز کا سامنا ہے انہیں ایک ایسی اپوزیشن سے واسطہ پڑے گا جو انہیں ایک پل بھی سکون کا سانس نہیں لینے دے گی۔
تلخ ماحول