طلب اور طالب لازم و ملزوم ہیں۔ طلب کے سوا طالب کیا ہے۔ طلب سچی ہو تو طالب سے مطلوب ہونا کٹھن نہیں رہتا ، یہ سفر سہل ہو جاتا ہے۔ سو، طلب بہرصورت زندہ رہنی چاہئے۔ طلب پھو ل میں رس ہے، سیپ میں موتی اور جسم میں رو ح ہے۔ طلب گودا ہے ، جوہر ہے ۔ طالب کو طلب اللہ اور اللہ والوں کی مل جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے۔ اللہ والوں کی طلب سے اللہ ملتا ہے اور اللہ کی طلب اللہ والوں سے ہی جا ملاتی ہے۔ مالکِ کون ومکاں طالب اور کبھی خود ہی مطلوب بن جاتا ہے۔ یہی طلب ہمیں وادی کشمیر و ہزارہ لے گئی۔ طلب بطور زادِ راہ ، ہم جلیس تھی۔ اللہ والوں کی طلب بھی عجب شے ہے ، خود تڑپتی اور مسلسل تڑپاتی بھی ہے۔ کہیں بھی کوئی آستانہ دکھائی دے تو دل مچل اٹھتا ہے ، سونی سونی خوشبو رو ح میں جاگزیں ہوتی ہے۔ مظفر آباد سے ذرا پہلے امبور کے مقام پر حضرت سید جمعہ شاہؒ کے ہاں حاضری کے بعد ، دربار عالیہ حضرت سائیں سخی سہیلی سرکارؒ ہماری منزل مقصود تھی۔ اللہ والے جب اللہ کی مخلوق کو سہیلی بنالیتے ہیں تو خالقِ کل اللہ والوں کو گویا اپنی سہیلی بنا لیتا ہے۔ محفل دوستاں برپا ہوتی ہے ، راز و نیاز کی محفلیں سجتی ہیں۔ راز ، راز نہیں رہتا ، حجابات اٹھ جاتے ہیں۔ ذات سے کائنات تک کے در و ا ہوتے ہیں۔ کوئی طالب اور کوئی مطلوب ہوتا ہے۔ کوئی سید ذولفقار سے سائیں سہیلی سرکارؒ ہو جاتا ہے۔ سہیلی بن جانا، سہیلی بنالینا بڑی بات ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی کسی کو اپنا بنا لے یا پھر کوئی خود کسی کا ہو جائے۔ دربار عالیہ کا کشادہ احاطہ ہرکس و ناکس کو قبول کرتا ہے۔ اللہ والوں کے ہاں جانا ہی مقبولیت ہے۔ سہیلیؒ کی سہبیلوں کواللہ قبول کرلیتا ہے۔ عجب تسکین ہے ، سرور ہے۔ سائیں سہیلیؒ کے توسل سے اٹھے ہاتھ رائیگاں نہیں جاتے۔ یہاں حاضری کے بعد ، طلب حضرت شا ہ حسین بخاری المعروف پیر چناسیؒ کے آستانہ پہ لے گئی۔ مظفر آباد شہر کی حدت و تمازت پیر چناسیؒ کے مقام پہ خنکی میں ڈھل جاتی ہے۔ عوام وہاں سیروتفریح کی غرض سے جاتے ہیں جبکہ خواص کا مطمح نظر پیر چناسیؒ کی قدم بوسی ہے، جن کے مرکز تجلیات کے سبب پہاڑ کی چوٹی کوچار چاند لگ گئے۔ جنگل میں منگل ہے ۔ چند کلیوں پہ قناعت کرنے والے گلشن میں علاجِ تنگیِ داماں سے بہرہ ور نہیں ہوتے یعنی تفریح کے رسیائوں کو فقط تفریح تک ہی رسائی حاصل ہوتی ہے۔ یہ سفر اس قدر رسان بھی تو نہیں۔ گہرے بادلوں میں گھرایہ آستانہ بقعہ نور ہے ۔ نور والے نور بکھیرتے ہیں اور طالب یہ نور سمیٹتے چلتے جاتے یں ۔ تربت کے قریں دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے، انسان سکوت اور کشش کی دنیا کا سفر کرتا ہے۔ ظاہری آنکھ بند کرنے سے دل کی آنکھ وا ہوتی ہے۔ طالب مطلوب کی طلب لئے شب و روز اسی کیفیت میں بسر کرنا چاہتا ہے۔
سورج درختوں کی اوٹ سے کبھی دیکھنے اور اوجھل ہونے کی مشق دہرارہا تھا۔ گہرے ابر ہمارے رکنے کے لئے بے تاب تھے ،اور راستہ روک کے ہمارے قیام پہ مصر تھے۔ بہرحال جانے والے نے بالآخر جانا ہی ہوتاہے۔ مظفر آباد کے مصروف شہر کے وسط میں حضرت شاہ عنایت ولی سرکارؒ کی درگاہ پہ حاضر ہوئے۔ ہر سو محبت تھی۔ اس محبت کی خوشبونے روح کو معطر کر دیا تھا۔ گویا محبت کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔ اللہ والے محبت کے داعی ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں محبت راج کرتی ہے۔ محبت عطا ہوتی ہے۔ یہ عطا بڑی عطا ہے۔ اندھیرے کا سماں ہوا تو دربار عالیہ سائیں سہیلی سرکارؒ کوچل دیئے۔ مسافر خانہ میں قیام کیا ، جنابؒ کی پناہ میں جیئے ۔ بیشک اللہ والے پناہ دیتے ہیں ، قبول کرتے ہیں۔ مظفر آباد میں حضرت شاہ سلطانؒ ، حضرت مائی امی صاحبہ ؒ ، حضرت پیر محمد علی شاہؒ کی درگاہیں بھی شہر کی رونق اور روحانی تسکین کا سبب ہیں۔ صبح کرنے کے بعد اولیاء کی اس نگری کو ہم نے خیرباد کہا اور براستہ گڑھی حبیب اللہ مانسہرہ کو چل دئیے۔ بمقام گڑھی حبیب اللہ ، حضرت بابا قطب شہیدؒ کی خانقاہ پہ بھی حاضرہوئے ۔ جہاں نصیب لے جانا چاہے، وہاں چلے جانا چاہئے۔ ہم مقدر کے دھنی پاک درگاہوں پہ حاضری دیتے چلے گئے۔ حاضری حضوری میں بدل جائے تو بات بن جاتی ہے۔ حاضری درحقیقت حضوری ہی ہے۔ حاضرین حاضری میں کھڑے رہنے کو بے تاب ہوتے ہیں۔ یہ بے تابی بھی عطا ہے۔مانسہرہ کے قصبہ لساں نواب سے متصل سری دھنکہ ہماری اگلی منزل تھی۔ حضرت پیر رحمت اللہ بابا جی المعروف پیر دھنکہ شریفؒ کے ہاں حاضری میں بھی یہی طلب کارفرما تھی۔ بل کھاتے، پیچ دار راستے اور محبت کے طالب، ان درگاہوں پہ بہرحال پہنچ ہی جاتے ہیں ۔ انہیں بالآخر پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اللہ والوں کی محبت سفر در سفر کراتی ہے۔ یہ سفر دل کو بھاتا ، روح کو تازہ کرتاہے۔ تسکین در تسکین ہے۔ جلوت میں خلوت اور کہیں خلوت میں جلوت ہوتی ہے۔ واپسی پر مانسہرہ کے قصبہ شیخ آباد میں بابا ولی شاہؒ کی درگاہ پہ حاضری دے کر ہم ایبٹ آباد کو چل دئیے، جہاں سلسلہ نقشبند کے جید صوفی، والدین ماجدین کے پیشوا پیر صدیق اکبرؒ کی نشست گاہ ہے ۔ اس خوشبودار روح کا جاری کردہ ذکر زباں پہ جاری ہواتو گویا روح، روح سے جا ملی۔ جس جا بیٹھ کے اللہ والے اللہ کا ذکر کردیں ، وہاں مخلوقات کی دھڑکنیں پھر اس ذکر میں ہی دھڑکتی ہیں، دھڑکتی چلی جاتی ہیں۔ شب ولی اللہ کے اس شہر میں بسر کی اور صبح سویرے براستہ نتھیا گلی اسلام آباد کے لئے رخت سفر باندھا ۔ پہاڑوں کے بیچ بل کھاتا راستہ ، ہلکی ہلکی پھوار ، ہوائوں کی سرسراہٹ، دل موہ لینے والی آبشاریں اور گہرے بادل پہلو بہ پہلو ہمسفر رہے۔ ہماری طلب اس دوران میں ہوائوں، آبشاروں اور کبھی بادلوں کا روپ دھارتی چلی گئی۔
اللہ والوں کا روشن کردار
Aug 18, 2018