پنجرہ بند کشمیر

اللہ کی قدرت عجیب انداز میں رنگ دکھاتی ہے۔ اگر کشمیری اور پاکستانی اپنی ساری دولت اس بات پر خرچ کردیتے کہ دنیا کا میڈیا ، جو عموماً کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتا رہا، کشمیر کی موجودہ صورتحال کی صحیح عکاسی کردے تو ہم اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہ کر پاتے جو بین الاقوامی صحافت اور میڈیا نے از خود کردیا ہے۔ بھارتی دولت اور ابھرتی ہوئی معاشی طاقت کے باوجود دنیا کے اہم ترین اخبارات اور میڈیا نے ان مکروہ اقدامات کی لاقانونیت ، غیر آئینی حیثیت اور کشمیر ی عوام کے حقوق کو پامال کرنے کا سخت نوٹس لیا ہے۔اور تواتر سے وہاں ہونے والی بربریت کی خبریں شائع کررہے ہیں۔ خود بھارت کے با ضمیر طبقات سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک جماعت، جو ایک سیاسی پارٹی اور غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں پر مبنی تھی، نے وادی کا ایک معرکۃ الآرا دورہ کیا ہے اور حکومتی اقدامات کے بعد مقامی صورتحال کو ساری دنیا کے سامنے طشت از بام کردیا ہے۔
یہ جماعت جین ڈریز (جو بیلجیم نژاد ہندوستانی معیشت دان اور سماجی ورکر ہیں)، کویتا کرشنن (جو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی رکن ہیں)، میمونہ ملاح (جوآل انڈیا ڈیموکریٹک ویمن ایسوسی ایشن کی رکن ہیں) اور ومل بھائی (جو قومی اتحاد برائے عوامی تحاریک کے رکن ہیں) پر مشتمل تھی۔ اس جماعت نے اس علاقے کا دورہ 9-13 اگست کے دوران کیا اور اس کے بعد اپنی رپورٹ شائع کی ہے جس کا عنوان وہی رکھا ہے جو ہمارے اس مضمون کا ہے۔ اس کی اہمیت کے مدنظر ہم اس رپورٹ کا ایک خلاصہ نظر قارئین کررہے ہیں۔ "جب ہم نو اگست کو سرینگر پہنچے تو ہم نے شہر کو خاموش پایا جو کرفیو کیوجہ سے سنسان پڑا تھا، لیکن اس میں ہر طرف فوجیوں کی چہل پہل اور بلند بانگ باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ کرفیو مکمل تھا، جیسا کہ پانچ اگست کو تھا۔ سرینگر کی گلیاں خالی تھیں اور تمام ادارے، دفاتر، دوکانیں، پیٹرول پمپ،ہوٹل، ریسٹورانٹ، درسگاہیں، ٹریفک وغیرہ سب بند پڑے تھے۔ کچھ اے ٹی ایم اور کیمسٹ کی دوکانیں کھلی تھیں ، اور ہاں، تمام پولیس اسٹیشنز بھی کھلے تھے۔ اکا دْکا افراد ،ادھر اْدھر پھر رہے تھے لیکن گروہ کی شکل میں نہیں۔
ہم نے سرینگر کے اندر اور باہر طویل سفر کیا، اور ایک بڑے علاقے کا احاطہ کیا جو اْس سے کہیں زیادہ ہے جو مرکزِ شہر کا ایک چھوٹا علاقہ ہے جہاں بھارتی میڈیا کو ٹھہرایا گیا تھا۔اس ایک چھوٹے علاقے میں وقفے وقفے سے زندگی بحال ہوجاتی ہے جو میڈیا کیلئے اس دعوی کا جواز مہیا کردیتا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ خبر دے دے کہ کشمیر میں زندگی بحال ہوگئی ہے۔ہم جہاں بھی گئے لوگ میڈیا کے اس کردار سے سخت نالاں تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ سچائی، بھارتی میڈیا کے ان دعووں سے بہت دور ہے۔ ہم نے سرینگر شہر، دیہاتوں اور چھوٹی بستیوں میں پانچ دن گزارے اور سینکڑوں لوگوں سے بات چیت کی جن میں خواتین، اسکول اور کالج کے طلبا ، مزدور اور یو پی اور بنگال اور دیگر ریاستوں سے آئے مہاجرین، کشمیری پنڈت اور سکھ جو وادی میں رہائش پذیر ہیں اور کشمیری مسلمان شامل ہیں۔ ان سب لوگوں نے ہم سے شائستگی اور نفاست سے ملاقاتیں کیں، باوجودیکہ وہ غصے سے بھرے تھے، موجودہ صورتحال سیپریشان تھے اور ہماری آمد و مقاصد کے بارے میں اندیشوں کا شکار تھے۔ اپنے درد، غصے اور حکومت کیطرف سے دھوکہ دہی کے احساس کا بیان کرنے کے موقع پر بھی انہوں نے گرمجوشی سے ہماری میزبانی کی جس کیلئے ہم ان کے بہت مشکور ہیں۔
سوائے بی جے پی کے ترجمان برائے کشمیر امورہمیں کوئی ایک فرد ایسا نہیں ملا جس نے حکومت کے آرٹیکل 370 اور 35-A ختم کرنے کے فیصلے کی حمایت کی ہو۔ در حقیقت ان کی اکثریت نہ صرف ان اقدامات سے بلکہ اس کے طریقہ کار پر بھی نہایت غم و غصے میں مبتلا تھی۔لوگوں کو دھوکہ دہی کا احساس ہے۔ انکے اعتماد کو مجروح کیا گیا ہے۔ ابھی چند دن پہلے تک بڑے بڑے لیڈر بشمول کشمیر کے گورنر لوگوں کو اس بات کا یقین دلا رہے تھے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے والا اور پھر بھی یہ کام کردیا گیا۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہمارا تو بھارت کیساتھ رشتہ ہی آرٹیکل 370 کیوجہ سے تھا۔ اس کو ختم کرکے انہوں نے وہ رشتہ ہی توڑ دیا ہے جس نے ہمیں باندھ رکھا تھا۔اب تو ہم آزاد ہوگئے ہیں۔کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ جن کو کل تک ہم بھارتی ایجنٹ کہا کرتے تھے آج تو وہ بھی اندر ہیں۔ اب کیا کوئی باقی ہے جو بھارت کی ہمنوائی کریگا۔ ایک اور دلچسپ تبصرہ یہ تھا کہ ماضی میں کانگریس نے ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا تھا، آج پی جے پی نے تو سامنے سے ہمارے سینے میں چھرا گھونپا ہے۔
جہاں بھی ہم گئے دو جذبے ہمیں نظر آئے: غصہ اور خوف۔زندگی سخت مشکل سے گزر رہی ہے۔ کھانے پینے کی اشیا ختم ہوتی جارہی ہیں۔ یہ شکایتیں بھی ملی ہیں کہ لوگوں کو ہسپتال جانے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ عید کے دن بھی سڑکیں سنسان پڑی تھیں۔ صرف فوج اور پولیس کی گاڑیاں دوڑتی نظر آتی تھیں۔ اننت ناگ، شوپیاں اور پمپور میں کچھ بچے نئے کپڑے پہنے نظر آئے۔ لیکن ہر سو ایک سناٹا تھا۔ ایک خاتون نے روتے ہوئے کہا کہ ہمیں جیل میں بند کردیا گیا ہے۔ کشمیری نوجوان کبھی بھی گرفتار کیے جاسکتے ہیں اور پکڑنے والوں کیلئے کوئی وجہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔اننت ناگ میں چند لڑکیوں سے ہم نے عید کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ ہم کیسے عید منا سکتے ہیں جبکہ ہمارے بھائیوں کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لوگوں نے ملاقاتوں میں اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کیا لیکن اس کیلئے رسماً کیمرہ یا شناخت کیساتھ کچھ کہنے سے معذرت کرلی، جو اس خوف کی فضا میں قابل فہم بات ہے۔جو کوئی بھی کھلے عام ان اقدامات کیخلاف بات کریگا تو وہ یہ خطرہ مول لیگا کہ حکومتی اہل کار اس کے پیچھے پڑجائیں۔ لیکن لوگوں نے مودی کو ابلیس کہنا شروع کردیا ہے۔ بہت سے لوگوں نے ہم سے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ کرفیو اٹھنے کے ساتھ ہی شدید احتجاجوں کا سلسلہ شروع ہوجائیگا اور باوجودیکہ وہ پْر امن ہونگے، لیکن ان کو سختی سے کچل دیا جائیگا۔
ہماری رپورٹ کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں: (ا) کشمیر میں ایک نہایت شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور تقریباً اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ حالیہ حکومتی اقدامات اور ان کیلئے اپنایا گیا طریقہ کار کسی صورت قابل قبول نہیں ہیں۔ (۲) اس غصے کو قابو میں لانے کیلئے حکومت نے کشمیر میں کرفیو نافذ کردیا ہے یا کرفیو جیسے حالات پیدا کردیے ہیں۔ سوائے چند اے ٹی ایم اور کیمسٹ کی دکانوں کے زندگی کا کاروبار ہر طرح سے منجمد ہے؛ (۳) اس سختی کیوجہ سے کشمیر کی معاشی زندگی رک گئی ہے جو خصوصاً ایسے موقع پر مزید پریشانی اور تکلیف کا باعث ہے جبکہ عید الاضحی آنے والی ہے، جو ایک مذہبی تہوار اور خوشی کا موقع ہے؛ (۴) لوگوں کو حکومتی اہلکاروں، پولیس اور فوج کا خوف ہے اور اس خوف کی حا لت میں وہ زندگی گذار رہے ہیں ؛ (۵) بھارتی میڈیا کے یہ دعوے کے کشمیر میں حالات بہتر ہورہے ہیں اور زندگی معمول پر آتی جارہی ہے صریحاً غلط بیانی اور دروغ گوئی پر مبنی ہیں؛ موجودہ حالات میں کسی احتجاجی ریلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ لیکن جونہی حالات اس بات کی اجازت دینگے، پکا ہوا لاوا ابل پڑے گا۔ "
یہ ایک مختصر سی تصویر ہے جو خود ایک بھارتی جماعت نے کشمیر کا پانچ روزہ دورہ کر کے کھینچی ہے۔ یہ واضح ہے کہ مودی سرکار غاصبانہ مقاصد کیساتھ وادی پر حملہ آور ہوئی ہے۔ لیکن سلام کشمیریوں کی استقامت اور ان کے جذبہ حریت کو کہ وہ نہ اس اجتماعی قید سے ڈرتے ہیں اور نہ بھارت کی طاقت سے مرعوب ہوتے ہیں۔ یہ صرف چند دنوں کی بعد ہے، جب کرفیو اٹھایا جائیگا تو اس ظالم سرکار ، بھارتی عوام اور ساری دنیا کو یہ معلوم ہوجائیگا کہ کشمیری اپنی آزادی کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں اور ان کے پر امن احتجاج کو جتنی بھی بڑی طاقت کیساتھ کچلنے کی کوشش کیجائیگی ان کی تحریک توانا تر ہوتی جائیگی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...