مسئلہ کشمیر پر بھارتی ہٹ دھرمی کو سلامتی کونسل میں زوردار طمانچہ اور پاکستان کی بے مثال سفارتی کامیابی‘ کشمیر متنازعہ قرار
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جمعۃ المبارک کے روز اپنے بند کمرہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے اسے اپنا اندرونی معاملہ قرار دینے سے متعلق بھارت کا موقف مسترد کر دیا۔ اجلاس میں اقوام متحدہ کے قیام امن سپورٹ مشن کے معاون سیکرٹری جنرل آسکر فرنانڈس اور یواین ملٹری ایڈوائزر جنرل کارلوس نے جموں و کشمیر کی صورتحال پر بریفنگ دی۔ اجلاس کے بعد اقوام متحدہ میں چین کے مستقل مندوب نے میڈیا کو بتایا کہ اجلاس میں کشمیر کے معاملہ پر تفصیلی بحث ہوئی اور سلامتی کونسل کے ارکان نے کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انکے بقول یواین سیکرٹری جنرل نے بھی گزشتہ دنوں بیان دیا تھا کہ فریقین کو کسی بھی قسم کے یکطرفہ اقدام سے گریز کرنا چاہیے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کا مسئلہ عالمی سطح پر متنازعہ ہے اور چین کو مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پر تشویش ہے۔ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیر متنازعہ علاقہ ہے جہاں کی موجودہ صورتحال انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور دوطرفہ معاہدہ کے تحت حل ہونا چاہیے۔ سکیورٹی کونسل کے ارکان کا خیال ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر میں یکطرفہ کارروائی سے باز رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی اقدام نے چین کی خودمختاری کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اسکی جانب سے کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی سے خطے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ انہوں نے پاکستان اور بھارت سے اپیل کی کہ وہ معاملے کا پرامن حل تلاش کریں۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سلامتی کونسل کے اجلاس میں روس نے پاکستانی موقف کی حمایت کر دی۔ اس سلسلہ میں اقوام متحدہ میں روس کے اول نائب مستقل مندوب (متری پولیانسکی) نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کے چارٹر اور اسکی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔ انکے بقول پاکستان اور بھارت شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کے تحت آگے بڑھ سکتے ہیں۔ امید ہے مسئلہ کشمیر پر پاکستان بھارت اختلافات حل ہونگے‘ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت مل کر باہمی مسائل کا سیاسی و سفارتی حل نکالیں۔ سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں پانچ مستقل ارکان سمیت کونسل کے 15 ارکان شریک ہوئے۔ یہ اجلاس تقریباً 90 منٹ تک جاری رہا جس کے دوران سلامتی کونسل کے ایک مستقل رکن ملک کی جانب سے کشمیر میں بھارتی مظالم کی تحقیقات کی تجویزبھی پیش کی گئی۔
صرف کشمیر ایشو پر اول تو پچاس برس بعد سلامتی کونسل کے اجلاس کا ہنگامی بنیادوں پر انعقاد ہی سفارتی محاذ پر پاکستان کی بہت بڑی فتح ہے جبکہ اجلاس میں کشمیر کی صورتحال کو ذاتی معاملہ قرار دینے کے بھارتی موقف کا مسترد ہونا اور سلامتی کونسل کی جانب سے دوبارہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا جانا بھارت کی سفارتی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ اس پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بجا طور پر اس امر کا اظہار کیا ہے کہ آج کشمیر ایشو پھر سے زندہ ہو گیا ہے جبکہ سلامتی کونسل نے کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کرکے اسے مستقل ہڑپ کرنے کی ساری بھارتی منصوبہ بندی غارت کر دی ہے۔ انکے بقول سلامتی کونسل کا اجلاس ہمارے مراسلے پر طلب کیا گیا جس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ دنیا نے کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف ہماری آواز توجہ اور غور سے سنی ہے اور بھارت کے پیدا کردہ حالات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان نے یہ کوشش جموں و کشمیر کے عوام کیلئے کی ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل تک یہ کوشش جاری رہے گی۔ 1965ء کے بعد پہلی مرتبہ سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر زیربحث آیا ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے بھی اسی تناظر میں سلامتی کونسل کے اجلاس پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا کہ کشمیریوں کو قید تو کیا جا سکتا ہے مگر انکی آواز نہیں دبائی جاسکتی۔ آج انکی آواز بین الاقوامی فورم پر سنی گئی ہے‘ ہم جموں و کشمیر کے مسئلہ کا پرامن حل چاہتے ہیں۔
کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنا ویسے تو بھارت کا شروع دن کا ایجنڈا ہے جو درحقیقت پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ایجنڈا ہے۔ اسی بنیاد پر بھارت نے قیام پاکستان کے وقت ہی کشمیر کا تنازعہ کھڑا کر دیا اور تقسیم ہند کے فارمولا کی روشنی میں مسلم اکثریتی آبادی ہونے کے باوجود اس کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا بلکہ جواہر لال نہرو اپنا ہی پیدا کیا گیا مسئلہ کشمیر حل کرانے کیلئے اقوام متحدہ جا پہنچے تاہم یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو تسلیم کیا اور بھارت سرکار کو مقبوضہ وادی میں رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی مگر بھارت اپنی بدنیتی اور توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں سے ہی منحرف ہو گیا اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے دفعہ 370 کے تحت مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی ریاست کا درجہ دے دیا۔ اسکے برعکس پاکستان کا شروع دن سے یہی موقف رہا ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور یواین قراردادوں کی روشنی میں کشمیری عوام نے خود اپنے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان نے آج تک آزاد جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل نہیں کیا اور یواین قراردادوں کی روشنی میں اسکی الگ حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے جبکہ آزاد کشمیر ہی نہیں‘ مقبوضہ کشمیر کے عوام بھی اپنا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ کرچکے ہیں اور بھارتی تسلط سے جلدازجلد خلاصی چاہتے ہیں۔ اسی بنیاد پر کشمیری عوام نے مقبوضہ کشمیر کٹھ پتلی اسمبلی کے انتخابات میں کبھی حصہ لیا نہ ان انتخابات کو کبھی تسلیم کیا اور بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے 1947ء سے شروع کی گئی جدوجہد بے بہا جانی اور مالی قربانیاں دیتے ہوئے آج تک جاری رکھی ہوئی ہے۔ بھارت نے کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے ترغیب و تخویف سمیت ہر ہتھکنڈہ آزمایا مگر وہ کشمیریوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی بھی لچک پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس سے زچ ہو کر بھارتی ہندو لیڈران نے جہاد کشمیر کو دہشت گردی کے کھاتے میں ڈالنے اور پاکستان کو اس دہشت گردی کا سرپرست قرار دینے کی مذموم منصوبہ بندی طے کرلی۔
اسی بھارتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر ایشو پر تین جنگیں ہوچکی ہیں اور سقوط ڈھاکہ کی صورت میں پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد بھارت باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے جس نے نہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر کے حل کی نوبت آنے دی اور نہ ہی شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کی بنیاد پر اس نے پاکستان سے دوطرفہ مذاکرات کی راہ کبھی ہموار ہونے دی ہے جبکہ کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دیکر بھارت پاکستان سے منسلک آزاد کشمیر اور اسکے شمالی علاقہ جات پر بھی اپنی بدنظریں گاڑے ہوئے ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی کوئی بھی حکومت پاکستان کی کبھی خیرخواہ نہیں رہی اور ہر بھارتی حکومت کا ایجنڈا پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کا ہی رہا ہے۔ تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی کی موجودہ مودی سرکار پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کی تکمیل کی جلدی میں نظر آتی ہے اور مکتی باہنی کے ذریعے 1971ء میں پاکستان کو توڑنے کے داعی نریندر مودی اب باقیماندہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یقیناً اسی گھنائونی منصوبہ بندی کے تحت مودی نے اپنے پہلے دور اقتدار سے اب تک پاکستان بھارت سرحدوں پر کشیدگی میں کمی نہیں آنے دی اور مقبوضہ کشمیر میں بھی مظالم کے نئے ہتھکنڈے اپنا کر انہوں نے اپنا قصاب مودی والا چہرہ نمایاں کیا ہے۔
مودی سرکار کے انوکھے مظالم کے باوجود کشمیری عوام نے اپنی پرعزم جدوجہد میں کوئی کمی نہیں آنے دی اور عالمی برادری کے سامنے ہندو انتہاء پسند مودی سرکار کا جنونی چہرہ بے نقاب کرنے کا سلسلہ بھی ساتھ ہی ساتھ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ پاکستان نے بھی کشمیریوں کی آواز ہر عالمی اور علاقائی فورم تک پہنچانے کیلئے کبھی کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اسکے باوجود عالمی برادری کشمیری عوام کے دکھوں کے ازالہ اور یواین قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کیلئے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی تھی۔ بے شک ایمنسٹی انٹرنیشنل‘ اقوام متحدہ کے مشنز اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اور علاقائی فورمز کی جانب سے بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لیا جاتا رہا ہے اور امریکہ‘ چین‘ یورپی یونین سمیت متعدد عالمی قیادتیں مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان اور بھارت کے مابین ثالثی کی پیشکش بھی کرچکی ہیں مگر بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث مسئلہ کشمیر کے حل کا کوئی سرا ہاتھ آتا نظر نہیں آرہا تھا۔ بھارت تو یقیناً مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کی روشنی میں حل کا روادار ہی نہیں جس نے کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی نیت سے ہی اس پر اپنا فوجی تسلط جمایا اور اسی کی بنیاد پر اس نے پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھا کر اسکی سلامتی تاراج کرنے کی بھی گھنائونی منصوبہ بندی طے کی جبکہ مودی سرکار نے اس منصوبہ کی تکمیل کی جلد بازی میں ایسے اقدامات اٹھائے جس سے پاکستان اور کشمیر کے عوام ہی نہیں‘ پورے خطہ اور پوری دنیا کے امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرات لاحق ہوگئے۔
شاید کشمیر کے معاملہ پر علاقائی اور عالمی فورمز پر تادیر بحث مباحثہ کا سلسلہ جاری رہتا اور باہمی مفادات کے اسیر عرب‘ ایشیائی اور یورپی مغربی ممالک مصلحتوں کا لبادہ اوڑھے رکھتے مگر مودی سرکار نے کشمیر کو ہڑپ کرنے کی جلدی میں اس ماہ پانچ اگست کو کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت پر کلہاڑا چلا کر درحقیقت اپنے پائوں پر کلہاڑا مار دیا ہے کیونکہ مودی سرکار کے اس ٹوکہ اقدام نے نہ صرف مسئلہ کشمیر کو پوری توانائی کے ساتھ دوبارہ زندہ اور عالمی برادری میں اجاگر کردیا بلکہ اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر چین کو اپنے خلاف زیادہ متحرک کر دیا جس نے پہلے دوٹوک انداز میں بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے کا الٹی میٹم دیا اور پھر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کیلئے پاکستان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہو گیا اور سلامتی کونسل کے ارکان کو باور کرایا کہ بھارت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے کاٹ کر چین کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے۔
سلامتی کونسل کا اجلاس طلب ہوا تو بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے ایٹمی حملے میں پہل کرنے کی گیدڑ بھبکی لگا کر عالمی برادری کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے حوالے سے مزید دھڑکا لگا دیا چنانچہ سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان سمیت کسی بھی رکن ملک کو کشمیر کے بارے میں بھارتی اقدامات کی حمایت کی مجبوری لاحق نہ ہوئی اور انکی جانب سے کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیکر اسکے یواین چارٹر اور اسکی قراردادوں کے مطابق حل کا تقاضا کیا گیا۔ اس حوالے سے بلاشبہ پاکستان نے بھی اپنی کامیاب سفارتکاری کے تحت بھارت کا مکروہ چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر کیا ہے اور عالمی قیادتوں کو کشمیریوں پر جاری بھارتی مظالم کا ہر رخ دکھا کر قائل کیا ہے کہ بھارتی جنونی ہاتھ روک کر ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی یقینی بنائی جا سکتی ہے جس کیلئے مسئلہ کشمیر کا کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق آبرومندانہ حل ہماری بنیادی ضرورت ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے بھی اسی تناظر میں امریکی صدر ٹرمپ سے ٹیلی فونک رابطے میں انہیں کشمیر میں بھارتی مظالم پر مفصل بریفنگ دیکر انہیں پاکستان کے موقف پر قائل کیا۔ بھارت نے ایٹمی حملے میں پہل کرنے کی دھمکی تو گزشتہ روز دی ہے جبکہ اس نے پاکستان کے ساتھ غیراعلانیہ جنگ گزشتہ پانچ سال سے جاری رکھی ہوئی ہے اور کشمیر ایشو پر پڑنے والے عالمی دبائو کے باوجود اس نے کنٹرول لائن پر پاکستان کی چوکیوں اور شہری آبادی پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے جمعرات کو پاک فوج کے تین جوان اور جمعۃ المبارک کے روز ایک جوان شہید ہوا جبکہ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دو ہفتے سے لگے کرفیو میں مودی سرکار نے لمحہ بھر بھی نرمی پیدا نہیں ہونے دی اور کشمیری عوام کیلئے نماز جمعہ کی ادائیگی بھی ناممکن بنا دی۔ اس سفاکی پر عالمی برادری خاموش تو ہرگز نہیں رہ سکتی اس لئے اب مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بھارت پر عالمی دبائو بڑھنا فطری امر ہوگا اور اسے بالآخر عالمی رائے عامہ کے آگے سرتسلیم خم کرنا پڑیگا کیونکہ وہ اپنے لئے عالمی تنہائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اب مودی سرکار کی کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کی خواہش تو شاید ہی پوری ہو پائے مگر اسکی حماقتوں نے اسکے دور میں ہی کشمیر کی آزادی کی راہ ضرور ہموار کر دی ہے۔