کراچی(نوائے وقت رپورٹ)وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والے صرف سندھ کے نہیں بلکہ پاکستان کے دشمن ہیں۔کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ دو تین دن سے عجیب عجیب باتیں کی جا رہی ہیں، کچھ دوست کبھی آئین کو توڑنے کی بات کرتے ہیں تو کبھی سندھ میں گورنر راج کی باتیں ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ کی تقسیم کی بات کرنے والوں کو پاکستان کا دشمن سمجھتا ہوں، آئین میں دیے گئے اختیارات کسی کے ساتھ شیئر نہیں کریں گے، کسی کے دماغ میں یہ فتور ہے تو نکال دے، ایسی باتوں سے سندھ کے لوگوں کو دکھ پہنچتا ہے۔ وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کیا ہمیں پتا نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر آپ کیا غلطیاں کر رہے ہیں۔ خارجہ سطح پر غلطیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے سندھ سے متعلق باتیں کی گئیں۔حالیہ بارشوں کے بعد کراچی میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ زیادہ بارشوں سے ترقی یافتہ شہروں میں بھی مسائل ہوتے ہیں۔ این ڈی ایم اے کو کراچی بھیجنے کا مقصد یہ سمجھنا تھا کہ بارشیں بہت زیادہ ہوئی ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی کے نالے اس سے پہلے کے ایم سی صاف کرتی تھی، 38 نالوں کی صفائی کے لیے ورلڈ بینک کے تحت ایک بڑا پروگرام ہے، میئر کراچی متفق ہوئے کہ سندھ حکومت نالوں کی صفائی کا کام کرے جب کہ 200 کے قریب چھوٹے نالوں کا کام ڈی ایم سیز کر رہی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ 26 اور 27 جولائی کو بارشیں ہوئیں اور مسائل ہوئے، این ڈی ایم اے سے بات ہوئی کہ جب سندھ حکومت نالوں کا کام کررہی ہے تو کیوں کرنے نہ دیا جائے۔ این ڈی ایم اے نے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر آئے ہیں، تین نالے ہم صاف کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں مراد علی شاہ نے کہا کہ مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ ہی مجھ سے کسی نے آرٹیکل 149 سے متعلق بات کی ہے۔کراچی میں بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے کے بعد ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی سے متعلق سوال پر مراد علی شاہ کا کہنا تھا ایڈمنسٹریٹر تعینات کرنا صوبائی حکومت کا اختیار ہے، مشورہ کسی سے بھی ہو سکتا ہے اور ایڈمنسٹریٹر کی تعیناتی کے لیے کچھ ناموں پر غور کر رہے ہیں۔وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ سندھ میں 28 اگست کو بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہو رہی ہے، ہم جلد سے جلد بلدیاتی انتخابات کروانا چاہتے ہیں، بلدیاتی نظام کو اور بہتر ہونا ہے، ترامیم صوبائی اسمبلی میں بھی آئیں گی۔انہوں نے میڈیا کے مالکان اور نمائندوں سے درخواست کی کہ اس ملک کے لوگوں کی جان بچانے کے لیے ایک مثبت کردار ادا کریں، تکلیف ہر کسی کو آتی ہے لیکن جان سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پر جب این ڈی ایم اے آئی تو ان سے بات ہوئی تھی کہ اگر حکومت سندھ سارے کام کر رہی ہے تو انہیں ہی سارا کام کرنے دیا جائے اور فیصلہ کیا کہ تین نالے وہ صاف کریں گے۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے اس بارے میں انتہائی تفصیلی بات کی اور اس گفتگو میں چیف جسٹس نے این ڈی ایم اے کو ہدایت کی کہ آپ نالوں کی صفائی میں مدد کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم تو وفاق سے کہہ رہے تھے آپ آئیں اور اس صوبے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں، صرف اور صوبوں میں کام اور افتتاح کر کے اس صوبے کو نظرانداز نہ کریں۔ اس کے بعد کچھ صوبائی وزرا کے ساتھ میں نے وفاقی وزرا سے باتیں کی۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس کے بعد باتیں چلیں کہ تینوں جماعتیں ایک ہو گئیں لیکن سب اپنے دماغ میں ایک بات ڈال لیں کہ ایگزیکٹو رول میں سیاسی جماعتوں کا کردار نہیں ہے، ایگزیکٹو رول حکومتوں کا کام ہے۔ اس موقع پر انہوں نے پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کے درمیان کراچی کے بارے میں مل کر کام کرنے کے حوالے سے اطلاعات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف مذاکرات ہوئے ہیں، کسی قسم کا معاہدہ نہیں ہوا، ہم صرف ایک بات کہتے ہیں کہ ہم آئین اور قانون کے حساب سے کام کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں دوٹوک الفاظ میں کہتا ہوں کہ کوئی کمیٹی نہیں بنی ہے، کمیٹی بننے کی بات ہوئی ہے، وہ کمیٹی بنے گی تو صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کی ہو گی کیونکہ ایگزیکٹو رول کے لیے سیاسی جماعتوں کی کمیٹی نہیں بنتی، سیاسی جماعتوں کی کمیٹیاں سیاسی کاموں کے لیے بنتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر چیئرمین بدلنے سے کچھ نہیں ہو گا، پہلے اپنے کام کرو کیونکہ آپ کی ناکامی سے سارے صوبے متاثر ہو رہے ہیں، ایف بی آر جو جمع کرتا ہے اس میں ساڑھے 57فیصد صوبوں کا ہے تو جو پلان میں نے بنائے اگر 245 ارب نہیں آئیں گے تو میں کہاں سے پورے کروں گا۔ اس سے قبل اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج اور آرٹیکل 149 کا اطلاق زیر غور نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں میرے بیان کا غلط مطلب لیا گیا۔کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کریگی۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی سماعت میں آئینی آپشن پر میرے بیان کا غلط مطلب لیا گیا۔ انہوں نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئینی آپشن کا مطلب گورنر راج یا کوئی اور آپشن نہیں تھا۔ کراچی سے متعلق ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی ہے، یہ بھی ایک آئینی آپشن ہے۔ خالد جاوید خان نے کہا کہ وفاق چاہتا ہے کراچی میں غیر جانبدار ایڈمنسٹریٹر اور ایڈوائزری کمیٹی مل کر کام کرے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کو یقین دلایا ہے کہ آئین کے منافی کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ میں گورنر راج اور آرٹیکل 149 زیر غور نہیں ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے وفاقی حکومت کے ادارے مدد کریں گے۔