مشرقِ وسطی۔امن کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

میں نے چند سال پہلے عرب اسرائیل موضوعات پر کچھ کالم تحریر کیے تھے جسے استادِ محترم میرِ صحافت مجید نظامی (مرحوم) نے ایک جرأت مندانہ اقدام قرار دیا تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ انہی کالموں میں میری سابق اسرائیلی وزیراعظم اور سابق صدر آنجہانی شمعون پیریز کے ساتھ تصویر بھی چھپی تھی اور مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے نوازشریف صاحب کے دوسرے دور میں جلاوطنی کے بعد اس وقت کی اسرائیلی گورنمنٹ اور خصوصاً اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم شمعون پیریز کے ساتھ مذاکرات کے لیے نامزد کیا اور ان ملاقاتوں کے نتیجے میں، میں پاکستان کے عوام کے جذبات اور علاقائی صورت حال اسرائیلی قیادت تک پہنچانے میں کامیاب رہا، میں نے اپنی پہلی ملاقات میںمسٹر شمعون پیریز سے یہ پوچھا کہ کیا فلسطین کو ایک آزاد ریاست کا درجہ دے دیا جائے گا؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئے برجستہ جواب دیا کہ ایک آزاد اور ڈیموکریٹک فلسطین ہماری شدید تر خواہش ہے مگر خود فلسطین کے اطراف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اور عر ب ریاستیں یہ نہیں چاہتیں کہ ایک آزاد اور خودمختار جمہوری فلسطین کا قیام عمل میں آئے کیونکہ تقریباً تمام عرب ممالک اور ریاستوں میں یا تو ڈکٹیٹر شپ ہے یا بادشاہت۔ اس لیے فلسطین کے اطراف عرب قیادت خوفزدہ ہے کہ ایک آزاد اور خودمختار فلسطین کے قیام کی صورت میں اس کے جمہوری اثرات ان ریاستوں کے عوام اور کلچر پر  مرتب  ہوں گے۔ یاد رہے فلسطین کے عظیم رہنما اور الفتح مزاحمتی تحریک کے بانی(مرحوم) یاسرعرفات کے بھارت کے ساتھ بہت قریبی اور نجی تعلقات تھے  بھارتی وزیراعظم مسز اندراگاندھی اوریاسرعرفات بہن بھائی بنے ہوئے تھے ۔ کشمیر کاز پر فلسطینی قیادت کی مجرمانہ خاموشی اور بھارت کی طرف داری ہمیشہ پاکستانی سفارتی حلقوں میں باعثِ تعجب رہی ۔ خود شہید بی بی بے نظیر بھٹو صاحبہ اکثر اپنی گفتگو میں کہا کرتی تھیں کہ  یاسرعرفات اور صدام حسین کی طرف سے سفارتی محاذ پر پاکستان کی مخالفت ایک اچنبھے کی بات ہے۔ وہ کہا کرتی تھیں کہ فلسطینی عوام سے اظہارِ یک جہتی کے لیے پاکستان میں یومِ القدس منایا جاتا ہے جبکہ لاکھوں کشمیریوں کی شہادت پر فلسطینی  اور عراقی  سیاسی قیادتوں کے منہ سے اُف تک نہیں نکلتی۔
کئی اور خلیجی ممالک بھی پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی حمایت کرتے ہیں۔انہی دنوںاس پر پاکستان کی طرف سے بین السطور بہت کچھ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایک سال سے پاکستان باور کرارہا تھا کہ کشمیر ایشو پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا اجلاس بلایا جائے مگر ایسا نہیں ہوا تو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے یہ بیان آیا کہ مزید تاخیر کی صورت میں ہم کشمیر ایشو پر ساتھ دینے والے مسلم ممالک کا اجلاس بلانے پر مجبور ہونگے۔اس پر سعودی عرب کی طرف سے مثبت رویے کا اظہار کیا گیا تاہم اپوزیشن اور کچھ مولوی حضرات اس پر تلملاتے نظر آئے۔اسی کو شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کہا جاتا ہے۔اب نئی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی کہ اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے مابین صدر ٹرمپ نے امن معاہدہ کرادیا جس میں سعودی عرب کی عدم رضامندی یا عدم مشاورت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔مگر کل تک جن لوگوں کی توپوں کا رُخ حکومت کے خلاف اور وہ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دیتے تھے اب ان کے دل سے فلسطینیوں کی محبت کیا ہوئی یہ لوگ بالکل خاموش ہیں۔   موجودہ دور کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہمیں آج کی ضروریات کے مطابق نہ صرف خود کو ڈھالنا ہوگا۔ متحدہ عرب امارات کی ریاستوں کے والیان کی نہ صرف اسرائیلی سرمایہ داروں اور سرکاری احکام کے ساتھ دوستیاں ہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے پارٹنر بھی ہیں۔اور اب تو ایک معاہدے کے بندھن میں بھی بندھ گئے ہیں۔چند ماہ قبل ابوظہبی میں اسرائیلی کھلاڑی نے جوڈو ٹورنامنٹ میں سونے کا تمغہ جیت لیا اور اس موقع پر پہلی مرتبہ اسرائیل کا قومی ترانہ پڑھا گیا۔صدر جنرل پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور حکومت میں بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات پر خاصی پیش رفت ہوئی اور قریب تھا کہ یہ تعلقات قائم ہو جاتے کہ چالاک بھارت نے قدم آگے بڑھاتے ہوئے ہم پر سبقت لے لی اور آج اسرائیل کی مضبوط سفارتی آواز بھارت کے ساتھ گونجتی سنائی دیتی ہے۔مشروبات سے لے کر ادویات، ٹیکنالوجی، کاسمیٹک، خوردنی تیل سمیت ایک ہزار سے زائد مصنوعات ہم اسرائیل یا پھر یہودیوں کی بنائی ہوئی استعمال کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن