یہ ہلچل کیوں مچی ہے؟

Aug 18, 2020

28جولائی 2020 یہ دن اس مضمون کی اشاعت کا وقت شائید گزر چکا ہو اور قارئین کو ایک گزرا ہوا وقت محسوس ہو لیکن جس دن بھی اس مضمون کی اشاعت ہوگی اس دن بھی یہ 28جولائی 2020 کی طرح تازہ ہوگا۔ اس دن بھی ایک ہلچل سی مچی ہوگی جیسے کہ آج نظر آرہی ہے۔ چند دن قبل جب مشہور زمانہ مولانا صاحب کراچی تشریف لے گئے تھے اس وقت کی ایک خبر یہ بھی تھی کہ سخت ترین بارشوں کی وجہ سے کراچی ڈوبنے والا ہے۔ اس خبر کے بعد سندھ کی ہائی کمان بلاول زرداری صاحب کو اپنی تمام حکومتی مشینری کے ساتھ کراچی میں موجود رہنا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا، کیوں ایسا نہیں ہوا؟ سیاست سے دلچسپی رکھنے والے حضرات یہ جانتے ہیں کہ ایسا کیوں نہیں ہوا، لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ زرداری صاحب کی ناسازی طبع کو ایک تڑپ میں مولانا کی کس بات نے بدلا؟ مولانا نے زرداری صاحب سے ایسا کیا کہا کہ وہ بلاول کو لاہور بھیجنے پر نا صرف آمادہ ہوئے بلکہ مجبور ہو کر کہا کہ فورا چھوڑو کراچی اور لاہور پہنچو اور ڈیرہ ڈال کر بیٹھ جائو۔ بلاول لاہور پہنچے تو پیچھے پیچھے مولانا بھی لاہور پہنچ گئے جس سے اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ مولانا نے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور کہا ہے۔ زرداری صاحب اپنی سیاست چھوڑ کر مولانا کے موقف کو تسلیم کر کے انکے اشاروں پر چلنے پر مجبور ہو گئے۔ جی PPPسرپٹ دوڑ پڑی ہے۔ محترم مولانا کے پیچھے اسکے باوجود کہ PPPکے جیالے مولانا صاحب کو ان لوگوں میں شامل سمجھتے ہیں جو لوگ بھٹو کوپھانسی دینے کے معاملے میں مرحوم جنرل ضیاء کے ساتھ تھے۔ حد یہ ہے کہ آج اس دربار پر آل بھٹو سجدہ ریز ہے جو اتفاق سے جنرل ضیاء کے منہ بولے بیٹے کا سیاسی مزار یا دربار ہے۔ پرانے جیالوں کے علاوہ عام پاکستانی حیران اس لیے ہیں کہ روٹی ، کپڑا اور مکان کا نعرہ دفن کر کے بھٹو کے ظاہری وارث(ظاہری اس لیے کہ بھٹو کے اصل اور خاندانی وارثوں میں کوئی بھی نہ تو بھٹو کا نعرہ چھوڑ سکتا ہے، نہ ہی بھٹو کے قاتلوںکو معاف کر سکتا ہے) ضیاء مرحوم بلکہ ضیاء شہید کے سیاسی وارثوں کے دربار پر ہاتھ باندھے کیوں کھڑے ہیں؟ ایسی کیا مجبوری آن پڑی ہے کہ سندھی عوام اور بھٹو کی پھانسی کو زرداری صاحب و بلاول نے بھلا دیا ہے؟ لہٰذا میڈیائی دانشور اور دیگر تمام سوچنے والے اب یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ آخر ایسا کیا کہا ہے مولانا صاحب نے کہ زرداری صاحب عالم بیماری میں بھی تڑپ اٹھے ہیں لیکن!!!
اس سوال کے جواب کا زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا اس لیے کہ بلاول صاحب کا خطاب، شہباز شریف سے ملنا اور ملکر گفتگو کرنا اس سوال کا جواب یہ دیتا ہے کہ زرداری صاحب سے مولانا صاحب نے جو کچھ بھی کہا اسکا مطلب یہ تھا کہ بھول جائو سب کچھ، یہ بھی کہ PPPبھی کوئی پارٹی ہے، یہ بھی بھول جائو کہ بلاول کو وزیراعظم بنانا ہے، سب کچھ بھول جائو اور لاہور پہنچو۔ طرز عمل ایسا اپنائو کہ بلاول صاحب کے روپ میں مریم اورنگزیب کی سی چاپلوسی، وفاداری نظر آئے شہباز شریف کو، لہٰذا دیکھنے والوں کو بھی ایسا ہی نظر آیا، بلاول کا رویہ، لب و لہجہ یہ بتا رہا تھا کہ انکا ٹارگٹ یہ ہے کہ کسی بھی طرح شہباز شریف کو قابو کیا جائے، شہباز شریف انکے قابو آئے یا نہیں یہ بات انکے مشترکہ پریس کانفرنس میں یوں نظر آئی کہ جیسے بلاول کو یقین آگیا ہے کہ انہوں نے ہاتھ سے نکلتے ہوئے شہباز شریف کو میرا لیڈر، میرا لیڈر کہہ کر شیشے میں اتار لیا ہے اور شہباز شریف کے رویے سے یوں لگا جیسے کہہ رہے ہوں کہ بچُو یہ ابھی تمہارے کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ ہم نے تو تیرے ابا جان کو سڑکوں پر گھسیٹا ہے اور تم ہمارے ساتھ ہی ہاتھ کرنے آگئے ہو۔ یہ وہ تاثر تھا جو PPPاور PMLNقیادت کی ملاقات کے بعد کی پریس کانفرنس سے ملا اور حتمی نتیجہ APCپر چلا گیا۔ عید کے بعد یہ APCکب ہوتی ہے؟ اور خود کو اپوزیشن اور 22کروڑ پاکستانیوں کا نمائندہ سمجھنے والے کچھ لوگ مثلاََ شریف فیملی، زرداری فیملی اور انکے سپورٹرز، مولانا، اچکزئی، اسفندیار وغیرہ اب کس رنگ میں سامنے آتے ہیں؟ یہ بعد کی بات ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ مولانا صاحب نے ایسا کیا کہا کہ زرداری صاحب جیسے سیاستدان کے قدموں تلے سے بھی زمین نکل گئی غلام بن کر دربار شریف میں کیوں بچھ گئے؟ اب یہی سوال ذہنوں میں کھلبلی مچائے ہوئے ہے کہ اچانک ایسا کیا ہوا کہ اٹھارویں ترمیم کی تلوار اٹھائے پاکستان پر حملہ آور بلاول کو نا صرف ڈوبتا ہوا کراچی بھول گیا بلکہ سندھ کارڈ بھی انکے ہاتھ سے کہیں گر گیا جو وہ سندھ میں سر عام کھیلتے ہیں لیکن دوسرے صوبوں میں جا کر اس کارڈ کو جیب میں رکھ کر ایک پاکستانی بنتے ہوئے پاکستان کی فوج پر حملہ آور ہو جاتے ہیں تا کہ نواز شریف و مریم نواز ہی نہیں وہ تمام طاقتیں بھی خوش ہو جائیں جنکی نیندیںپاک فوج نے حرام کر کے ان کی تمام سازشوں کو خاک میں ملا کر پاکستان کو سازشوں کا شکار ہونے سے بچا لیا ہے لیکن نظر یہ آیا کہ بلاول کو اس بھاگ دوڑ میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی یعنی کہا جا سکتا ہے کہ نسخہ مولانا میں جو کچھ تھا اسکا اثر زرداری و بلاول پر تو ہوا 
لیکن شہباز شریف پر مولانا کی کاریگری کا کوئی اثر نہیں ہوا ۔ ایک عرصے سے مولانا خاموش بیٹھے تھے وہ اچانک اٹھے اور کراچی جا پہنچے تو سیاسی سوچ رکھنے والوں کو کوئی حیرانی نہیں ہوئی اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ مولانا حکومت سے باہر رہنے کا ایک ایک پل جنہیں انگاروں پر چلنے جیسا محسوس ہوتا ہے وہ مولانا ظاہری طور پر خاموش ہیں لیکن انکا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ کر گذرنے کے سلسلے میں چوبیس گھنٹے متحرک رہتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ PPPاور PMLNایک لمحہ ضائع کیے بغیر میدان میں آکر پاکستان کو آگ لگا دیں لیکن ان دونوں پر وہ اعتبار بھی نہیں کرتے اس لیے کہ انکے آزادی مارچ میں ان دونوں نے مولانا کے ساتھ دھوکہ کیا تھا۔
 لہٰذا اب کی بار مولانا کو کچھ ایسا چاہیے تھا جو زرداری و شریف فیملی کو انکے ساتھ چلنے پر ہی نہیں بھاگنے پر بھی مجبور کر دے۔ لہٰذا عرصہ خاموشی میں گزرے وقت میں مولانا کے دماغ نے وہ نسخہ دریافت کر ہی لیا جو ان دونوں جماعتوں کو مولانا کے پیچھے چلنے پر مجبور کر سکتا تھا لہٰذا!! اب یہ سوال مزید پائیدار ہو گیا کہ زرداری صاحب سے مولانا نے ایسا کیا کہا کہ ’’سب پہ بھاری ایک زرداری‘‘ سب سے ہلکے پھلکے کم وزن ہو کر اڑتے ہوئے شریف خاندان کے دربار میں جا جھکے، تو اسکے بعد تمام سوچیں یہ اندازے لگانے میں مصروف ہیں کہ دوران خاموشی مولانا نے کونسا نسخہ ایجاد کیا اور اس بارے میں کیا کہہ کر PPPکے انگ انگ میں بجلی دوڑا دی۔ اس سلسلے میں وہ لوگ جن کی عالمی و ملکی حالت پر گہری نظر ہے ان میں سے کچھ کا خیال یہ ہے کہ !! مولانا نے تمام صورتحال کا جائزہ لیکر اندازہ لگا لیا ہے کہ اگر عمران کو مزید ایک سال مل گیا تو وہ عالمی افق کا وہ روشن ستارہ بن گا اسے محض میڈیا کی دھول سے بھی دھندلا بھی نہ کیا جا سکے گا، جسکا نتیجہ ایک یہ ہوگا کہ کرپشن کرنیوالا کوئی نہیں بچے گا تو معاون کیسے بچیں گے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ آنیوالے الیکشن میں وہ سب کو روندتا ہوا دوبارہ اقتدار میں آکر ایسے قوانین بھی بنا لے گا جن سے وہ تمام راستے بند ہو جائیں گے جن کے ذریعے کرپشن کرنیوالے جب چاہیں فرار ہو سکتے ہیں۔ مولانا نے فارغ اوقات میں اچھی طرح دیکھ لیا کہ اس وقت دنیا کے تمام چھوٹے بڑے ملک کورونا میں الجھ کر باقی سب کچھ فراموش کر بیٹھے ہیں اور انہیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہا کہ اس سر پر پڑی بلا کورونا سے جان کیسے چھڑائیں؟ ایکطرف سپر پاور سمیت دنیا کا یہ حال ہے تو دوسری طرف عمران خان ہے جس نے کسی نہ کسی طرح اور کسی حد تک کورونا پر بھی قابو پا لیا ہے اور اپنے ملک میں تعمیراتی صنعت کو اس طرح اٹھایا ہے کہ نا صرف بیروزگاری کا کسی حد تک خاتمہ ہو گیا ہے بلکہ کئی مذید صنعتوں میں بھرپور کام شروع ہو جائیگا۔ اسکے ساتھ ملکی تجارتی کام بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ یہ بھی کہ نئے شہر آباد کرنے کی بھی تیزی سے ابتداء کر دی گئی ہے۔ سی پیک منصوبہ برق رفتاری سے اپنی تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے اسکے علاوہ ڈیم بنانے کی بھی ابتداء ہو چکی ہے اور جس کام پر عمران خان کو ایک عالمی ہیرو کا درجہ دنیا بھر میں دیا جا رہا ہے۔
 وہ بلین ٹری منصوبہ ہے جس سے پاکستان ہی کا نہیں بلکہ ساری انسانیت کا بھلا ہوگا ۔ سب سے اہم یہ کہ مسئلہ کشمیر جو صرف ایک بانی مسئلہ رہ گیا تھا اسے ایک بھڑکتا ہوا شعلہ بنا کر اسکی تہش ساری دنیا میں پھیلا دی ہے عمران خان نے، خارجی سلسلے میں عمران کی عظیم ترین کامیابی ایک یہ ہے کہ بھارت ریت کے ذروں کی طرح بکھرنے کو ہے اور دنیا بھر میں تنہا ہو چکا ہے دوئم یہ کہ FATFکے بھیانک جال سے پاکستان نکلنے کو ہے۔ یہ باتیں عمران کے کسی مخالف کو جتنا پریشان کر سکتی ہیں اتنے پریشان تو مولانا بھی ضرور ہوئے ہونگے لہٰذا یہ بات سمجھ میں تو ضرور آئی ہونگی کہ عمران اکیلا نہیں پاکستانی عوام اور فوج بھی عمران کے ساتھ ہے اور اس نتیجے پر بھی ضرور پہنچے ہونگے کہ اس کچھ کو روکنے کا  ایک ہی طریقہ ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کی حکومت ختم کر دی جائے۔ اسکے بات یہ سوچ پیدا ہونا قدرتی بات ہے کہ یہ حکومت ختم کیسے ہو؟ اتفافاََ ہوا یہ کسی بھی طرح یہ ہوا کہ حکومت میں دھڑے بندی وغیرہ کا تاثر عام ہو گیا، حکومت پریشان ہے یہ تاثر بھی عام ہو گیا اور یہ بھی عام ہو گیا کہ گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے عمران کچھ بھی کر گذریں گے لیکن اس کام کے لیے انہیں اپوزیشن کی ضرورت پڑے گی۔
یہ سوچ بھی بن گئی کہ اس تعاون کے بدلے اپوزیشن، زرداری اور شریف فیملی کے تمام مقدمات ختم کرنے کے لیے نیب کو ختم کرنے کا مطالبہ کرے تو حکومت ماننے پر مجبور ہو گی، اس بات کا اچھی طرح یقین ہو جانے کے بعد ہی مولانا بجلی کی سی سرعت کے ساتھ کراچی پہنچے تو لازمی بات ہے یہی سب گوش گزار کیا ہوگا زرداری صاحب کی خدمت میں !! اسکے بعد جو کچھ 28جولائی سے 31جولائی یعنی عید تک جو کچھ بھی ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور عید کے بعد بھی کچھ عرصہ تک یہی سوچا جائیگا کہ یہ ہلچل کیوں مچی ہے؟ ہو سکتا ہے میڈیا کا کچھ حصہ پردہ اٹھا کر دکھا دے کہ یہ ہلچل کیوں مچی ہے ، لیکن جو بات یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ جو لوگ دوسروں کو ہاتھ دکھانے میں Phdہیں، خود انکے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہو گیا جسکا ثبوت مولانا پارٹی کا تازہ ترین رویہ ہے۔

مزیدخبریں