اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی ملازمین کی بھرتیوں، ترقیوں سے متعلق کیس کا محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے ایکٹ 2010 کو کالعد م قرار دے دیا۔ ریٹائرڈ ملازمین پر فیصلے کا اطلاق نہیں ہو گا۔ جبکہ برطرفی کے ایام کی ملنے والی ادائیگیاں واپس کرنا ہوں گی۔ محفوظ کیا گیا فیصلہ 20 ماہ کے بعد سنانے پر وکیل نے کمرہ عدالت میں احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نظام انصاف اس حد تک گر گیا ہے کہ میرا موکل 20 ماہ سے محفوظ فیصلے کا انتظار کرتے کرتے مرگیا۔ جسٹس قاضی محمد امین نے فیصلہ پڑھ کر سنایا جبکہ 42 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس مشیر عالم نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے ملازمین کی بحالی/ترقی سے متعلق ایکٹ 2010 ء کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں ایکٹ کے ذریعے تمام ملازمین کو ملنے والے فوائد فوری روکنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ ایکٹ دو ہزار دس سے فائدہ حاصل کرنے والے ملازمین اپنی سابقہ پوزیشن پر واپس جائیں گئے۔ عدالت نے برطرف بحالی کی بعد ہونے والی یکمشت ادائیگیاں واپس لینے کا حکم بھی دیا۔ تاہم عدالت نے قرار دیا کہ ترقی پانے والے ملازمین کو عہدوں کے برعکس ملنے والے فوائد واپس نہ لیے جائیں۔ ریٹائرڈ ملازمین پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ایکٹ سے ریگولر ملازمین کی حق تلفی کی گئی۔ 2010 ء میں بنایا جانے والا ایکٹ ایک خاص طبقہ کو فائدہ پہنچانے کے لیے تھا۔ سپریم کورٹ میں سول ایوی ایشن پاکستان ٹیلی کمیونیکشن، انٹیلجنس بیورو، ٹریڈنگ کارپوریشن سمیت 72 اداروں کے ملازمین نے درخواستیں دائر کی تھی۔ پیپلزپارٹی حکومت نے 2010ء میں ہزاروں ملازمین کو ایکٹ کے تحت بحال کرتے ہوئی ترقیاں دیں تھیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے وکیل سے کہا آپ تقریر کہیں اور جا کر کریں۔ وکیل طارق اسد نے کہا تقریر نہیں حقیقت بیان کر رہا ہوں۔ 20 ماہ میں میرے کلائنٹس فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے مر گئے، عورتیں بیوہ ہو گئیں، کسی کو پروا نہیں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا آپ فوری ڈائس چھوڑ دیں۔ جس پر وکیل طارق اسد نے کہا میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں لیکن عدالت کے احترام کے باعث جا رہا ہوں۔ جسٹس قاضی محمد امین نے کہا اپ کچھ نہیں کر سکتے۔