تجزیہ: محمد اکرم چودھری
مہنگائی دہشت گردی سے بھی بڑا خطرناک مسئلہ ہے لیکن بدقسمتی سے حکومت اس مسئلے پر توجہ دینے اور حل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے۔ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں استحکام اور عام آدمی کے ذرائع آمدن بڑھانے کے لیے صوبوں اور وفاق کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مہنگائی کے مسئلے پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے۔ عام آدمی کے لیے زندگی ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ اگر جمہوری دور میں بھی اس مسئلے کو پارلیمنٹ میں وقت نہیں دیا جاتا تو پھر نظام کی افادیت پر سوالات اٹھیں گے۔ ملک میں امن و امان قائم اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اتفاق رائے سے پالیسی بنائی گئی اور بلاامتیاز کارروائی کی گئی۔ دہشت گرد تو ختم ہو گئے لیکن اشیاء خوردونوش کے دہشت گرد آج بم دھماکے کرنے والوں سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو رہے۔ سرکاری ادارے بھی مہنگائی کی رپورٹس جاری کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ رپورٹس کہیں بھی چیلنج ہو سکتی ہیں۔ کیونکہ حقیقی طور پر مہنگائی سرکاری اداروں کے اعدادوشمار سے بڑھ کر ہوئی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مرغی زندہ برائلر سینتیس روپے 91 پیسے فی کلو، انڈے اٹھاون روپے 37 پیسے فی درجن مہنگے ہوئے، کیلے کی قیمت میں اوسطاً سات روپے 92 پیسے فی درجن اضافہ دیکھنے میں آیا جب کہ چاول انیس روپے 35 پیسے فی کلو مہنگے ہوئے۔ اگست دو ہزار اٹھارہ سے اگست دو ہزار اکیس کے دوران چینی اوسطاً انچاس روپے 92 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی۔ اگست دو ہزار اٹھارہ میں چینی کی اوسط قیمت پچپن روپے 59 پیسے فی کلو تھی، جو اب ایک سو پانچ روپے 51 پیسے فی کلو ہے۔ آپ بازار جائیں تو چینی اس سے زیادہ قیمت پر فروخت ہو رہی ہو گی۔ دو ہزار اٹھارہ سے اب تک بیس کلو آٹے کا تھیلا تین سو باسٹھ روپے 33 پیسے مہنگا ہوا۔ اگست 2018ء تا اگست2021ء دال ماش پچانوے روپے 60 پیسے فی کلو، دال مسور تینتالیس روپے94 پیسے، دال مونگ اڑسٹھ روپے 86 پیسے، دال چنا انتیس روپے ستتر پیسے فی کلو تک مہنگی ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار بھی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ اگر ادویات کی قیمتوں کو دیکھا جائے تو یہاں بھی قیمتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال پھلوں، سبزیوں کا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہونے سے مسائل میں اضافہ ہوا پھر آمدن کے نہ بڑھنے اور زندگی گذارنے کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے آمدن اور اخراجات میں پیدا ہونے والے فرق نے عام آدمی کی ذہنی صحت کو بھی متاثر کیا ہے۔ اگر حکومت اس طرف سنجیدگی سے کام نہیں کرتی تو پھر عام آدمی اور نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے والے نعروں کو سیاسی ہی سمجھا جائے گا۔ اپوزیشن بھی ذاتی مسائل میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ ہوش ربا مہنگائی کے باوجود وہ اس اہم ترین مسئلے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے میں ناکام رہی ہے۔