امریکہ کا چین،روس،ترکی،برطانیہ،بھارت سے رابطہ

واشنگٹن، اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ، آئی این پی) امریکہ نے افغانستان کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلہ خیال کے لئے چین، روس، برطانیہ، ترکی اور بھارت کے ساتھ بھی ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ واشنگٹن کے مطابق بھارت افغانستان میں بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے جہاں وہ مختلف مقامات پر اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ تاہم واشنگٹن میں پالیسی سازوں اور سکالرز نے بارہا کہا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ملک افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی گہرائی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن دونوں انتظامیہ نے عوامی سطح پر طالبان کے ساتھ فروری 2020ء کے امن معاہدے کو حتمی شکل دینے میں پاکستان کی حمایت کو تسلیم کیا ہے۔ مزید یہ کہ واشنگٹن افغانستان میں اثر و رسوخ کے لیے بھارت اور پاکستان کے درمیان جدوجہد سے آگاہ ہے اور چاہتا ہے کہ دونوں ممالک اپنی دشمنی سے حساس علاقے میں پہلے سے کشیدہ صورتحال کو مزید کشیدہ نہ ہونے دیں۔ امریکی سیکرٹری خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سیکرٹری اینٹونی بلنکن نے بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ا یس جے شنکر سے افغانستان اور وہاں کی بدلتی ہوئی صورتحال کے بارے میں بھی بات کی۔ بھارت نے پاکستان کو ایک بار پھر افغان صورتحال پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی بحث میں حصہ لینے سے روک دیا۔  سلامتی کونسل کے موجودہ بھارتی صدر نے اشرف غنی کی حکومت کے سفیر کو ہنگامی اجلاس سے خطاب کی اجازت دی۔ پاکستان اور افغانستان دونوں نے اپنی درخواستیں یو این ایس سی کے رول 37 کے تحت جمع کرائی تھیں جو کہ ایک غیر رکن کو کونسل سے خطاب کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ دونوں موجودہ کونسل کے ممبر نہیں ہیں جس کے پانچ مستقل اور دس غیر مستقل ارکان ہیں۔ چین سے رابطے میں امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بیجنگ خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے افغانستان سے امریکی انخلا کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے نیٹو کے سیکرٹری جنرل اور یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندوں سے بھی ٹیلی فونک رابطہ کیا۔ نیٹو سربراہ سٹولٹنبرگ نے کہا ہے طالبان ان لوگوں کو سہولت دیں جو ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ طالبان کو چاہئے افغانستان کو دہشتگردوں کا مرکز نہ بننے دیں۔ خدشہ تھا طالبان دوبارہ کنٹرول حاصل کریں گے۔ لیکن یہ اندازہ نہیں تھا کہ طالبان اتنی جلدی قبضہ کر لیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن