لاہور (فاخر ملک) افغانستان کی صورتحال پر ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا یکساں موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان صورتحال پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے اور اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سینٹرل ایگز یکٹو کمیٹی کے اجلاس کے بعد کہا کہ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کرے اور دہشت گردی کے معاملے پر کسی مصلحت کا شکار نہ ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل جاری نہیں رکھے گی تو خطرہ ہے کہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو گا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے راہنما قبل ازیں نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل درآمد کا مطالبہ کر چکے ہیں اور اب یہ مطالبہ پیپلز پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں بھی سامنے آیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ افغان صورتحال پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے اور حکومت اپنی پالیسی واضح کرے۔ جبکہ حکومت کو اپنی پالیسی کے بارے میں اپوزیشن اور پارلیمنٹرینزکو بریف کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے بحث ہونی چاہئے تاہم ان کا کہنا تھا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) افغانستان میں پیدا ہونیوالی صورتحال کے بارے میں اپنے موقف کے بارے میں مشاورت کر رہی ہے۔ جمیت علمائے اسلام کے قائد اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ملا ھیبت اللہ کے نام طالبان کو مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ واضح رہے کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی نے اتوار کے روزوزیر اعظم پاکستان عمران خان کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میںافغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال کا وے فارورڈ تجویز کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ تمام فریق قانون کی حکمرانی، عوام کے انسانی حقوق کا احترام کریں اور کسی دہشتگرد تنظیم کو افغان سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں جبکہ امن سکیورٹی اور سیاسی تصفیہ کے لئے مل کر کام کیا جائے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان نے ملک میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح ثبوت پوری دنیا کے سامنے رکھے ہیں اور آج افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے پر سب سے زیادہ واویلا بھارت کر رہا ہے۔