سینٹ الیکشن اوپن بیلٹ پر نہیں کرائے جا سکتے: سپریم کورٹ 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ''سینٹ انتخابات کے لئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے''  کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کے لئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کا تفصیلی تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایک، چار کے تناسب سے دی گئی اپنی رائے میں قرار دیا ہے کہ سینٹ کے انتخابات آئین اور قانون کے تابع ہیں۔ اس لئے سینٹ کے انتخابات آئین کے مطابق  ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ  انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ، صاف، شفاف، اور قانون کے مطابق بنائے جوکہ کرپٹ پریکٹس سے پاک ہوں۔ ووٹ ہمیشہ کے لیے خفیہ نہیں رہ سکتا ہے، الیکشن کمیشن انتخابی عمل میں بدعنوانی کے سدباب کے لیے دستیاب وسائل سمیت ہر قسم کی جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے، آئین کے مطابق تمام وفاقی اور صوبائی حکام الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں ان کی معاونت کے پابند ہیں۔ جبکہ جسٹس یحی آفریدی نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ صدر مملکت نے جس معاملے سے متعلق رائے طلب کی ہے، وہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت قابل غور ہی نہیں ہے،  72صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ، جسے چیف جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا ہے، سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت سپریم کورٹ کو ایڈوائزری دائرہ اختیار حاصل ہے۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کے سوا  تمام انتخابات خفیہ ہوں گے، آئین کے آرٹیکل 226 کی قانونی طور پر کوئی اور تشریح نہیں ہو سکتی ہے، الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 122/6 کے مطابق سینٹ انتخابات خفیہ رائے شماری سے  ہونگے۔ سینیؒٹ انتخابات قانون کی بجائے آئین کے تحت ہوں گے، سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے نہیں کروائے جا سکتے ہیں۔  آئین کے آرٹیکل 220 کے مطابق پارلیمنٹ کو بدعنوانی اور دیگر جرائم سے متعلق قانون سازی کا اختیار ہے، تاہم آرٹیکل 220 پارلیمنٹ کو الیکشن کمیشن اور الیکشن کمشنر کے اختیارات واپس لینے سے متعلق قانون بنانے سے روکتا ہے،آرٹیکل 220 کے مطابق وفاقی اور صوبائی ایگزیکٹو اتھارٹیز الیکشن کمیشن کی معاونت کی پابند ہیں، الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کر سکتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ وہ کرپٹ پریکٹس کے خلاف کارروائی کرے،  جہاں تک  ووٹ کے خفیہ رہنے کا تعلق ہے سپریم اس حوالے سے فیصلہ دے چکی ہے، سپریم کورٹ کے طے کردہ اصول کے تحت ووٹ کی رازداری تاقیامت نہیں رہ سکتی ہے ، ووٹنگ میں کس حد تک سیکریسی ہونی چاہیے؟ اس کا تعین کرنا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ جسٹس یحی آفریدی نے اپنی اختلافی رائے دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سپریم کورٹ کی رائے حتمی تصور کی جاتی ہے، اختلاف رائے ہمیشہ جمہوریت کا حصہ رہا ہے، اختلاف رائے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی مسئلہ سیاسی نظام سے نکل کر عدالت میں آ جائے، عدالت میں معاملہ آنے کا مطلب جمہوری رائے کیلئے خطرہ ہے، قوموں کی زندگی میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں، ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب سیاسی نظام مایوس کر دیتا ہے تاہم سیاسی نظام سے مایوسی کا مطلب یہ نہیں کہ عدالت بہتر حل دے سکتی ہے، عدالتوں کا کام ریاست کے دوسرے اداروں میں مداخلت کرنا نہیں ہے، عدالت کا کام صرف قانونی سوالات اور نقاط کو طے کرنا ہے، غلطیاں سدھارنے کا کام عدالت کی بجائے منتخب اکثریت (پارلیمنٹ) کو کرنے دینا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن