کابل (شنہوا+ نوائے وقت رپورٹ) طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر 20 سال بعد افغانستان پہنچ گئے۔ ملا عبدالغنی برادر کو افغانستان میں اہم ذمہ داری سونپے جانے کا امکان ہے۔ وہ امارت اسلامی افغانستان کے نائب امیر ہیں۔ 2020ء میں امریکہ سے امن معاہدے پر دستخط ملا عبدالغنی برادر نے کئے تھے۔ ملا عبدالغنی برادر طالبان کے قطر میں قائم سیاسی دفتر کے انچارج بھی ہیں۔ وہ ملا برادر کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق پوپلزئی قبیلے سے ہے۔ حامد کرزئی کا تعلق بھی اسی قبیلے سے ہے۔ ملا عبدالغنی برادر کا تعلق افغانستان کے جنوبی ضلع اورزگان سے ہے۔ طالبان کے سابق امیر ملا عمر اور ملا برادر ایک ہی مدرسے میں درس دیتے تھے۔ 1994ء میں قائم ہونے والی تنظیم طالبان کے بانی قائدین میں سے ہیں۔ طالبان دور میں ہرات صوبے کے گورنر اور طالبان کی فوج کے سربراہ رہے ہیں۔ ملا برادر طالبان رہنما ملا محمد عمر کے سب سے قابل اعتماد سپاہی اور نائب رہے۔ فروری 2010ء میں ملا عبدالغنی برادر کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ملا عبدالغنی برادر کو ستمبر 2013ء میں پاکستانی حکومت نے رہا کر دیا تھا۔ افغانستان میں نئی حکومت بنانے کی تیاریاں زورو شور سے جاری ہیں۔ دوسری جانب افغانستان میں حالات معمول پر آنے لگے ہیں۔ کابل میں کاروباری مراکز کھل چکے ہیں۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو تعلیم اور روزگار کی اجازت ہو گی۔ افغان میڈیا پر خواتین اینکرز بھی دوبارہ سکرینوں پر آ گئی ہیں۔ ادھر برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر نئے افغان صدر بننے کے لئے تیار ہیں۔ اخبار نے حکومت میں شامل ہونے والے دیگر اہم نام بھی ظاہر کئے ہیں۔ ان میں سراج الدین حقانی‘ ملا محمد یعقوب‘ سہیل شاہین اور خیر اللہ خواہ شامل ہیں۔ دوسری جانب طالبان نے افغانستان میں سرکاری ملازمین کیلئے عام معافی کا اعلان کر دیا ہے۔ کابل میں حالات نارمل ہو چکے ہیں۔ گورنمنٹ ملازمین کو کام پر واپس آنے کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ طالبان کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ لوگ پورے اعتماد کے ساتھ معمول کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ لوگوں کی حفاظت طالبان کی ذمہ داری ہے۔ بھارت کا رونا دھونا افغان حکومت ختم ہونے پر ہے۔ اپنی سرزمین کسی کے خلاف استعمال ہونے نہیں دیں گے۔ قطری وزیر خارجہ نے ملا عبدالغنی برادر سے ملاقات کی۔ افغانستان کے حکومتی معاملات قندھار سے چلانے کا امکان ہے۔ اہم طالبان رہنماؤں کو کابل اور دیگر صوبوں سے قندھار پہنچنے کی ہدایت کی۔ کابل ائرپورٹ پر امریکی فوج کی موجودگی پر وفد کو قندھار اترنے کا کہا گیا۔ طالبان کی جانب سے تحفظ کی یقین دہانی کے بعد متعدد سرکاری ملازمین اور ڈاکٹرز کام پر واپس آ گئے ہیں جبکہ کابل شہر کی سڑکوں پر ٹریفک پولیس نے دوبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ طالبان نے افغانستان بھر میں عام معافی کا اعلان کر دیا اور خواتین کی دعوت دی ہے کہ وہ ان کی حکومت میں شامل ہوں۔ غیرملکی خبر رساں ادارے اے پی کی رپورٹ کے مطابق یہ بیان طالبان کے ثقافتی کمیشن کے رکن انعام الہ سمنگانی کی جانب سے سامنے آیا۔ انعام اللہ نے افغانستان میں ان کی حکومت کیلئے امارات اسلامیہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہوئے کہا کہ امارات اسلامیہ نہیں چاہتی کہ خواتین متاثر ہوں۔ شرعی قوانین کے مطابق انہیں حکومتی سٹرکچر میں ہونا چاہئے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کا سٹرکچر مکمل طور پر واضح نہیں ہے۔ تاہم تجربے کی بنیاد پر ایک مکمل اسلامی قیادت ہونی چاہئے اور تمام فریقین کو اس میں شامل ہونا چاہئے۔ افغان خواتین نے گزشتہ روز کابل میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ حکومت میں خواتین کو نمائندگی دی جائے۔ خواتین کو ملکی سیاست میں نمائندگی دی جائے۔ خواتین نے کابل کے علاقے وزیر اکبر خان میں مظاہرہ کیا۔ موقع پر موجود طالبان نے خواتین مظاہرین کو نہیں ہٹایا۔ ایرانی وزارت خارجہ امور کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغانستان میں ایرانی مشن کھلے اور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ارنا نیوز ایجنسی کے مطابق سعید خطیب زادہ نے کہا کہ کابل میں اسلامی جمہوریہ ایران کا سفارتخانہ مکمل طور پر کھلا ہے اور اپنے امور سرانجام دے رہا ہے۔
میڈیا آزاد ہے،دنیا ہماری اقدار سے پریشان نہ ہوتوقع ہے عالمی برداری براہ راست بات کرے گی
Aug 18, 2021