چینی ڈالے بغیر چائے میٹھی نہیں ہوگی

Aug 18, 2021

 عرصے کے بعد دو بہت اچھی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ سوچا کہ آپ سب کو بھی ان کے بارے میں بتاؤں ۔ یہ بتانے کا فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ میں اس پرانے سکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا ہوں جس کا ماننا ہے کہ اچھا لکھنے اور اچھا بولنے کے لیے ضروری ہے کہ اچھا پڑھا اور سنا بھی جائے۔ بدقسمتی سے اب ہم اس دور میں موجود ہیں جس میں مجھ سمیت زیادہ تر لوگ‘ بلکہ لوگ نہیں صحافی گھر سے ہی ’’عقل کُل‘‘ کی ڈگری لے کر چلتے ہیں۔ اس کے باوجود گزارش یہی ہے کہ کتاب دوستی سے بہتر دوستی کی کوئی قسم نہیں ضروری نہیں کہ آپ کسی کی رائے سے مکمل اتفاق یا اختلاف کریں لیکن ایک معاملے کے جتنے پہلوؤں پر لکھا گیا ہو‘ اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر طرح کی رائے سے آگاہی حاصل کی جائے۔ اس سے کنفیوژ ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے مگر دلائل کو عقلی کسوٹی پر پرکھنے کے بعد غالب امکان یہی ہے کہ آپ اپنی ایک بہتر اور دلائل پر مبنی رائے قائم کرسکیں گے ناکہ فقط پسند ناپسند یاجذبائیت پر مبنی خیالات جو کہ اکثر اوقات بحث میں ناخوشگواری کا باعث بنتے ہیں۔
پہلی کتاب برادرم آصف محمود صاحب کی ہے ’’کشمیر‘ انٹرنیشنل لاکیا کہتا ہے ؟‘‘
آصف محمود صاحب کے کالمز آپ اکثر اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں اور یقیناً ان کا اپنا ایک طرز تحریر ہے جو زبان اورموضوع پر ان کی گرفت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کتاب کے ملنے سے پہلے میں ان کے ان کالمز کا گرویدہ تھا جو وہ اسلام آباد‘ مارگلہ اور فطرت کے حوالے سے لکھتے ہیں‘ لکھتے کیا ہیں؟ سماں باندھ دیتے ہیں۔ مجھ جیسا تن آسان آدمی جوکئی مرتبہ جوگرز اور ٹریک سوٹ کی خریداری کے مراحل سے گزر کر واک یا ٹریکنگ کی خواہش بلکہ حسرت پر زندگی گزارتا ہے‘ کے لیے آصف محمود کا دم غینمت ہے کہ ان کالمز کے ذریعے مجھے بھی لگتا تھا کہ آج ہم نے بھی تھوڑی بہت واک کر لی۔ ایک خوشگوار جھٹکا لگا جب کتاب موصول ہوئی کہ بطور وکیل وہ مسئلہ کشمیر پر بین الاقوامی قانون اور موقف پر بھی بڑی حد تک عبور رکھتے ہیں۔ اس کتاب کی سب سے اہم بات میرے لیے یہ ہے کہ کتاب کا پیش لفظ سید علی گیلانی نے لکھا ہے۔ کشمیر پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا لیکن بین الاقوامی قانون کی روشنی میں بعض باتیں بہت اہم ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ کیا پاکستان نے سٹینڈ سٹل معاہدے کی خلاف ورزی کی تھی؟ اس کا جواب بہت تفصیل سے یہاں لکھا گیا ہے۔ اسی طرح کیا قیام پاکستان کے بعد قبائل کو پاکستان سے کشمیر فتح کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا؟کشمیریوں کی مسلح جدوجہد پر بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے؟ سنی سنائی یا سینہ گزٹ باتوں کی بجائے مصدقہ حوالے بھی یہاں موجود ہیں اسی تناظر میں جونا گڑھ‘ حیدر آباد‘ جودھ پور اور مناوادر میں تقسیم ہند کے دوران اور بعد میں کیا ہوا ‘کے حوالے اور شہادتوں کا تذکرہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آجکل نوجوانوں کی اکثریت متذکرہ بالا قضیوں سے ناآشنا ہے اور مسئلہ کشمیر سے لاتعلقی یا بوجھ سمجھنے والے طبقے کو بھی بطور خاص صلائے عام ہے۔
دوسری کتاب برادرم اسد اللہ خان کی ہے اور کتاب کا نام ہے مجھے کیوں نکالا؟ ’’نوازشریف کے فوج سے اختلافات‘‘ 
ذاتی طورپر تو مجھے اس موضوع پر برادر بزرگ مرحوم مسعود ملک کے ایک فقرے کے بعد زیادہ کوئی غلط فہمی نہیں رہی۔ انہوں نے کہا تھا کہ نوازشریف کو فوج کے نظام سے عدم واقفیت نے یہاں تک پہنچایا وگرنہ آپ کو علم ہونا چاہیے کہ اگر نوازشریف اپنے بیٹے حسین نوازشریف کو بھی چیف آف آرمی سٹاف لگا دیں تو بھی ان کا پھڈا ہوگا۔
اسداللہ خان ٹی وی سکرین کا ایک جانا پہچانا چہرہ ہیں۔ نیوز اینکر کے بعد وہ کرنٹ افیئر کے پروگرامز میں میزبان کے طورپر جلوہ گر ہوئے۔ ان کے بارے میں بھی ٹی وی کی صحافت سے وابستہ دوسرے دوستوں کی طرح مجھے غلط فہمی تھی کہ شاید یہ بھی اپنا پروگرام لیپ ٹاپ اور گوگل کی مدد سے کرتے ہیں لیکن انتہائی اہم موضوع پر تحقیقی کتاب لکھ کر انہوں نے میری غلط فہمی کو رفع کر دیا ۔ کس حد تک مجھے اپنی اس بے بنیاد رائے پر ندامت بھی ہوگی لیکن دوسروں کی طرح مجھے بھی یہ ظاہر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
پیش لفظ میں اسد اللہ لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ایک مشاہدہ ہے نوازشریف کے ضدی‘ گھمنڈی اور کینہ پرور رویے کا جس نے نوازشریف کو کچھ دیا نہ قوم کو۔ قوم نے انہیں تین بار اقتدار کے ایوان تک پہنچایا اور انہوں نے تینوں بار اپنے مینڈیٹ کو فوج سے لڑنے اور اسے زیردست کرنے کا عوامی اجازت نامہ تصور کیا۔ اسے آپ کتاب کا خلاصہ سمجھ لیجیئے لیکن انہوں نے کتاب میں نہ صرف نوازشریف اور ان کے آٹھ آرمی چیفس کے بارے تفصیلات لکھی ہیں بلکہ انہوں نے قیام پاکستان سے لیکر آج تک پس پردہ جاری اقتدار کی رسہ کشی کے تاریخی پہلوؤں کو بھی اجاگر کیا ہے۔ کتاب چونکہ بنیادی طور پر نوازشریف سے معنون ہے اس لیے زیادہ تذکرہ ان کا اور ان کے آرمی چیفس یا آئی ایس آئی چیفس کے ساتھ معاملات کا ہے لیکن اس کتاب میں صحافت اور اہل صحافت کے حوالے سے میاں نوازشریف کی سوچ اوررویے کو لکھنا نہیں بھولے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں نوازشریف کے دور حکومت کے دوران صحافی اور صحافتی ادارے بھی محفوظ نہ تھے۔ 23 ستمبر کو کراچی میں دی نیوز کے رپورٹر کامران خان ایک قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ آگے چل کر لکھا 17 مارچ کو سات مسلح نوجوانوں نے دوپہر کے وقت کراچی میں بی بی سی کے نمائندے ظفر عباس کو بندوقوں کے بٹوں اور لوہے کی سلاخوں سے مارا‘ ظفر عباس کے بستر علالت پر پڑے بھائی کو زدوکوب کیا اور سامان کی توڑ پھوڑ کی پھر آگے لکھا ہے کہ یکم اکتوبر کو شام ساڑھے سات بجے افراد نے ماہنامہ تکبیر کے ایڈیٹر محمد صلاح الدین کے گھر پرحملہ کیا۔
جہاں میاں نوازشریف کا رویہ زیربحث لایا گیا ہے وہاں جنرل پرویز مشرف اور جنرل عزیز کی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ بھی کتاب میں شامل ہے۔ مجھے یقین ہوگیا ہے کہ نوازشریف صاحب کے بارے میں باآسانی کہا جاسکتا ہے کہ چینی ڈالے بغیر چائے میں جتنی مرضی چمچے ہلائیں چائے میٹھی نہیں ہوگی!

مزیدخبریں