مصطفی کمال پاشا
mkpasha1@gmail.com
سقوطِ کابل ، طالبان کی فتح ،افغانستان میں امن قائم کرکے دکھائیں گے
شراکت اقتدار نہیں انتقال اقتدار
چین ، روس ، ایران اور پاکستان کی ہمسائیگی اور تعاون خطے میں امن کی ضمانت ہے
طالبان نے کابل میں داخل ہوتے وقت عام معافی کا اعلان کرکے فتح مکہ کی یاد تازہ کر دی ہے ، طالبان کی جانب سے جنگ بندی کے ساتھ لوگوں سے ہتھیار جمع کروانے کیلئے کہا گیا ہے ۔ جبکہ اربوں ڈالر خرچ کر کے قائم کی جانے والی افغان نیشنل آرمی کا کہیں پتہ نہیں ہے ۔ افغانستان میں امریکیوں کی دولت سے مزے لوٹنے والے حکمران اپنا بوریا بستر سمیٹ کے یہاں سے نکل چکے ہیں ۔ امریکہ نے اپنے ناٹو حواریوں سمیت یہاں 20 سال تک قدم جمانے کی کاوشیں کیں۔ 2000 ارب ڈالر خرچ کئے اس جنگ میں 2448 امریکی فوجی ، 3846 کنٹریکڑ 66 ہزار افغان نیشنل آرمی کے افراد ، 1144 ناٹو فوجی اور 47245 افغان سویلین ہلاک ہوئے دوسری طرف 51,191 طالبان اور ان کے ساتھی اس معرکہ آرائی میں کام آئے ۔ 444 امدادی ورکر بھی ہلاک ہوئے 72 صحافی بھی اس عرصہ کے دوران مارے گئے۔
امریکہ نے یہاں 3 لاکھ سے زائد نفوس پر مشتمل افغان نیشنل آرمی (ANA) قائم کی۔ انہیں اعلی سطحی تربیت دی، اسلحہ فراہم کیا۔ امریکی و ناٹو افواج کی چھایہ چھتر تلے انہیں لڑنے اور دشمن کا سامنا کرنے کی عملی تربیت دی اس پر کروڑوں نہیں اربوں ڈالر خرچ کیے تا کہ وہ امریکی افواج کی واپسی کے بعد ملک کا نظم و نسق سنبھال سکیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ امریکی اتحادی افواج کے مکمل انخلاء سے پہلے ہی طالبا ن نے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کرنے کے لئے کابل کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ،اور بالآخر ایک بھی گولی چلائے بغیرکنٹرول سنبھال لیا ہے۔ ابھی حکمرانی کی تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔ مگر ایک بات طے ہو چکی ہے کہ افغانستان طالبان کا ہے طالبان ہی افغانستا ن عوام کے حقیقی نمائندے ہیں انہوں نے یک و تنہا 20 سال تک دنیا ئے سپریم طاقت امریکہ اور اس کے اتحادی ناٹو ممالک کی فوج کے خلاف مزاحمت کی ۔ اپنے وطن کی آزادی اور سالمیت کا دفاع کیا۔ اور بالآخر کامیا ب ہوئے اب انہیں کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے طاقت ، جرات ، استقامت کے ساتھ انہوں نے اپنی عسکری برتری ثابت کر دی ہے اپنی انتظامی صلاحیت حکمرانی کی صلاحیت وہ پہلے ہی 2001 سے پہلے اپنے دورے حکمرانی میں ثابت کر چکے ہیں ۔ اس دفعہ انہوں نے دوحہ میں دنیا کی سپریم پاور کے ساتھ طویل مذاکرات کر کے اپنی سفارتی صلاحیتوںکا بھی مظاہرہ کر دیا ہے ۔ ان مذاکرات کے دوران طالبان نے اپنی شرائط منوائیں۔ دنیا نے دیکھا کہ جنہیں دہشت گر د کہا جاتا تھا امریکیوں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کیے ۔ اس کے علاوہ امریکی اتحادی فوجیوں کے انخلاء کے دوران چین، روس ، ایران اور پاکستان کے ساتھ بھی سفارتی مذاکرات جاری رکھ کر انہوں نے اپنی سفارتی برتری منوا لی ہے۔ یہ ممالک طالبان کے ساتھ ہیں ان کے دوست ہیں ۔
اسی کی دہائی میں افغان مجاہد ین نے عظیم و الشان اشتراکی افواج کو شکست دے کراپنے وطن کی آزادی و سالمیت کو یقینی بنایا تھا پھر جب 1989میں اشتراکی افواج مجاہدین افغانستان کے ہاتھوں شکست کھا کر واپس لوٹیں تو سو ویت یونین عالمی کھیل میں اپنی پوزیشن برقرار نہ رکھ سکا اور دیکھتے ہی دیکھتے دو سالوں کے اندر اندر 15 ٹکڑوں میں تقسیم ہو کر اپنی عالمی برتری کھو بیٹھا۔ آج امریکہ بھی ویسے ہی حالات سے گزر رہا ہے 20 سال تک طالبان کے ساتھ لڑنے اور لڑتے ہی رہنے کے بعد ناکام ونامراد ہو کر واپس جا چکا ہے طالبان نے اس کی عسکری حیثیت اور سفارتی قوت کے تارپودبکھیر کر رکھ دئے ہیں غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والا طاقت کا خلاء ہو یا قیادت کا خلاء طالبان اسے مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور پہلے کی نسبت بہت بہتر اور مفاہمانہ انداز میں آگے بڑھ رہے ہیں کیا یہ بات حیران کن نہیں ہے کہ افغانستان فتح ہو گیا ہے لیکن خانہ جنگی کے آثار کہیں بھی نظر نہیں آرہے ہیں شمالی افغانستان بھی طالبان کے زیر نگیں آ چکے ہیں مزار شریف پر قبضے کے دوران کشت و خون نہیں ہوا ہے کیا یہ حیران کن بات نہیں ہے کہ کابل ایک بھی گو لی چلائے بغیر فتح ہو چکا ہے طالبان صدارتی محل میں براجمان ہو چکے ہیں اطلاعات ہیں کہ طالبا ن کو بہت سی جگہوں پر خوش آمدید کہا جا رہا ہے انہیں ہار پہنائے جا رہے ہیں انہیں پیامبر امن سمجھا جا رہا ہے ۔
امریکی فوجی شکست کے بعد یہاں خطے میں چین کے اثرات بڑھنے کی امید ہے چین سی پیک کے ذریعے پہلے ہی یہاں موجود ہے ایران کے ساتھ 25 سالہ معاہدے کے باعث ایران بھی اس کے دوستوں میں شامل ہو چکا ہے 500 ارب ڈالر کا 25 سالہ معاہدہ معمولی بات نہیں ہے ایران میں انفراسٹرکچر اور بندر گاہوں کی تعمیرو ترقی کے ذریعے چین یہاں مصروف عمل ہے۔ سی پیک کے پروجیکٹس کی تکمیل کے ذریعے معاملات پہلے ہی اس کے حق میں جا رہے ہیں امریکہ نے گزشتہ صدی کے اختتام پر روس کو افغانستان میں زچ کیا تھا روس کے لیے اب امریکہ کو یہاں زچ کر کے بدلہ چکانے کا سنہری موقع ہے اور روس اس حوالے سے مکمل طور پر یکسو ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ ملکر اپنا اثرو رسوخ بڑھائے گا طالبان پہلے ہی روس ، چین اور ایران کے ساتھ سلسلہ جنیانی کر رہے ہیں ا ب عالمی سطح پر طالبان حکومت کو نہ ماننے کا مسئلہ بھی درپیش نہیں ہو گا ۔ چین اور روس دونوں ویٹو پاور بھی رکھتے ہیں اور سلامتی کونسل کے مستقل ممبر بھی ہیں ۔ چین کے خطے میں اپنے مفادات بھی ہیں جن کی بازیابی کے لیے طالبان کا افغانستان ہی انہیں قبول ہو سکتا ہے حیران کن بات ہے کہ افغانستان کے تمام ہمسائے سوائے بھارت کے امریکوں کی افغانستان پر مسلط کردہ حکومت اور تیار کردہ افغان نیشنل آرمی ریت کا ڈھیر ثابت ہوئی صدر اشرف غنی کابل سے فرار ہو چکے اور حکومتی اہلکار بھی کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔
افغانستان کی تاریخ کا یہ کھلا سبق ہے کہ یہاں افغانوں نے کسی حملہ آور کو ٹکنے نہیں دیا اسے اپنے عزم بالجزم اور زور بازو سے مار بھگایا افغانوں نے حملہ آوروں کے مدد گاروں کو بھی کبھی معاف نہیں کیا ۔ گزشتہ سے پیوستہ صدی میں برطانیہ عظمی کی فوجوں کے خلاف افغانوں نے 32 سال تک جدوجہد کی۔ چار اینگلو ۔ افغان جنگوں کی تاریخ کا مطالعہ ہمیں افغانوں کی شجاعت کی کہانیاں بتاتا ہے، پھر سوویت یونین کے خلاف افغان مجاہدین کی شاندار جدوجہد آزادی بھی ہمارے ماضی قریب کی داستان ہے ۔ جسے نوائے وقت گروپ کے بانی مرحوم مجید نظامی کی ہدایت پر 20 برس قبل ’’ افغان باقی کہسار باقی‘‘ جیسے پیغام اقبالؔ کی صورت میں اس کے صفحات کی زینت بنایا گیا۔ 1979 میں جب اشتراکی افواج یہاں حملہ آور ہوئیں تو پاکستان نے اس حوالے سے قائدانہ کردار ادا کرنا شروع کیا پھر اقوام عالم بشمول مغربی دنیا اور اسلامی دنیا مجاہدین کی ممدومعاون بن گئیں اور دس سالوں کے اندر اندر مجاہدین نے اشتراکی افواج کو پسپا کر دیا ۔ اس کے بعد مجاہدین اشتراکیوں کے کٹھ پتلی حکمران نجیب اﷲ کو تخت کابل سے نہ ہٹا سکے حتی کہ وہ طالبان کے ہاتھوں ہلاک کر دیا گیا۔ پھر 9/11 2001 کے بعد جارح اقوام کے خلاف طالبان ہی نے گوریلا جنگ شروع کی جو کامیابی سے ہمکنار ہو چکی ہے امریکی یہاں سے رخصت کا سامان باندھ چکے کابل میں امریکی سفارتخانہ بند ہو چکا ہے دیگر امریکی اتحادی بھی رخصت ہو چکے ہیں ۔
اور ایک بار پھرخطے میں قیام امن کے لئے ہونے والی کاوشوں میں پاکستا ن مرکزی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔