اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی بنیاد پر وجود میں آئی۔ پاکستان کے حصول کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے سالہاسال جدوجہد کی اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں دیں۔ مردوں کو تہ تیغ کیا گیا۔ عورتوں کی عزتیں پامال کی گئیں۔ معصوم بچوں کو کرپانوں پر اُچھالا گیا، نوجوانوں اور علماء کرام کو پھانسیوں پر چڑھایا گیا، مسجدوں کو شہید کیا گیا، تعلیمی، معاشرتی اور اقتصادی طور پر مسلمانوں کو پیچھے رکھا گیا، نوجوان لڑکیوں کو اغوا کیا گیا۔ کون سا ظلم تھا جو برصغیر کے مسلمانوں پر انگریزوں، ہندوؤں اور سکھوں نے روا نہیں رکھا۔ ایک الگ اسلامی نظریاتی اور فلاحی ریاست کا حصول مسلمانوں کا اولین مقصدتھا اور اس کیلئے انہوں نے ہر طرح کی قربانی دی۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے اپنی صحت کو داؤ پر لگا دیا اور اپنی بیماری کو چھپائے رکھا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنی زندگی وقف کر دی۔ نوابوں، سرمایہ داروں اور بزرگان دین نے اپنے وسائل وقف کر دیے۔ طالب علموں نے اپنے تعلیمی مستقبل کی پرواہ نہ کی اور مسلم لیگ کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ گھریلو خواتین نے جلسے جلوسوں میں شرکت کی یوں ہمیں آزادی اور پیارا وطن نصیب ہوا۔
14 اگست 2022ء کو وطن عزیز پاکستان کا 75واں یوم آزادی تھا۔ 75 سال کسی بھی قوم کی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ زندہ قومیں اس اہم سنگ میل کو عبور کرنے کیلئے خاص تیاری کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے سال کے وسط تک اس حوالے سے ہمیں حکومتی و سرکاری سطح پر کوئی تیاری یا سرگرمی نظر نہیں آئی۔
میں نے اپنے کالموں میں بھی اس حوالے سے لکھا مگر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو باہمی محاذ آرائی سے فرصت ملتی تو انہیں پاکستان کی ڈائمنڈ جوبلی کا خیال آتا۔ جولائی تک تو سارے حکمران اور سیاستدانوں بھاؤ تاؤ میںمصروف رہے۔ قوم کو کوئی خوشخبری دینے کے بجائے بجلی، گیس اور پٹرول کے بم گرائے جاتے رہے اور 14 اگست کو پاکستان کے 75ویں یوم آزادی پر افراتفری میں جو ’’جشن‘‘ منایا گیا اطلاعات کے مطابق اس پر مقروض ملک کے کم بیش ایک ارب روپے لٹا دیے گئے۔ اس وقت جب عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی ہے اور حکمران کشکول اُٹھائے قرضوں کی بھیک مانگتے پھر رہے ہیں۔ مخلوط رقص کی محفلیں سجائی گئیں۔ہر سال یوم آزادی پر طوفان بدتمیزی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے کے پاس باجے تھے۔ جن کا شورہر طرف تھا۔ ڈھول باجے، بھنگڑے، بغیر سائلنسر کی موٹرسائیکلیں، منچلوں کی بدتمیزیاں غرض ہر وہ کام کیا گیا جو اسلام کے نام پر بننے والی اس نظریاتی ریاست کیلئے جانیں اور عزتیں قربان کرنے والوں کی روحوں کو تڑپا گیا۔ علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور تحریک پاکستان کے کارکن عالم ارواح سے یہ مناظر دیکھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے اس مقصد کے لئے تو پاکستان نہیں بنایا تھا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس تاریخی 75ویں یوم آزادی کو منانے کے لئے تین چار سال پہلے تیاریاں شروع کردی جاتیں، مختلف اداروں کو تحقیقی کام تفویض کیے جاتے، کتابیں لکھوائی جاتیں، دستاویزی فلمیں تیار کروائی جاتیں، کوئی خاص لوگو بنوایا جاتا جو سارا سال سرکاری دستاویزات پر پرنٹ ہوتا، قومی سطح پر ملی نغمے لکھنے کا مقابلہ کروایا جاتا، تحریک پاکستان کے حیات کارکنوں اور نمایاں خدمات انجام دینے والوں کے انٹرویوز ریکارڈ اور نشر کیے جاتے۔ تعلیمی اداروں میں سارا سال تقریبات، ملی نغموں اور تقریروں کے مقابلے منعقد کروائے جاتے، تعمیر پاکستان پبلی کیشنز اینڈ فورم اور اکادمی ادبیات اطفال لاہور کے پاس ملی حوالے اور بچوں کے ادب بارے ایسے تعمیری منصوبے ہیں جن کے تحت چار پانچ کروڑ میں حب الوطنی کے فروغ اور قیام پاکستان سے اب تک بچوں کے تمام ادب کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دن کی اخلاق باختہ تقریب پر ایک ارب روپے خرچ کیے جاسکتے ہیں۔ گلی کی ایک سڑک کروڑوں میں بن سکتی ہے لیکن ایسے تعمیری منصوبوں کیلئے یک مشت پانچ کروڑ نہ سہی ہر سال ایک کروڑ روپے تو حکومت دے سکتی ہے۔لیکن حکمرانوں اور ارباب اختیار کے اتنا وقت نہیں کہ وہ تعمیری منصوبوں کی تفصیلات جاننے کیلئے انکے عہدیداروں کو کچھ وقت دے دیں۔ کتنی ادبی و سماجی تنظیمیں ہیں جو ادب کے فروغ، کتابوں کی اشاعت اور معاشرتی فلاح کیلئے چند لاکھ کے حکومتی تعاون کی منتظر رہتی ہیں۔ ایک ایم پی اے یا ایم این اے خریدنے پر کروڑوں روپے خرچ کر دیے جاتے ہیں مگر تعمیری کاموں کیلئے حکومتوں کے پاس بجٹ نہیں۔ شرم کا مقام ہے کہ غیر ملکی سفارت کار ہمارے یوم آزادی پر اُردو میں پیغام دیتے ہیں اور ہمارے حکمران انگریزی میں خطاب کرتے ہیں۔ بس ان ہی حالات کی مایوسی اور بہتری کی امید کے ساتھ آپ کو پاکستان کا 75 واں یوم آزادی مبارک ہو…!!!
٭…٭…٭