مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت کی جانب سے پٹرولیم نرخوں میں اضافہ پر خفگی اور حکومتی اتحادی جماعتوں کے علاوہ وفاقی کابینہ کے متعدد ارکان کی جانب سے تحفظات کے اظہار کے باوجود وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ کے دفاع میں ڈٹ گئے ہیں اور انہوں نے اسے درست فیصلہ قرار دیتے ہوئے آئندہ مزید سخت فیصلوں کا بھی عندیہ دے دیا ہے۔ دوسری جانب وفاقی کابینہ نے جان بچانے والی 35 ادویات کے نرخوں میں اضافہ کی سمری متفقہ طور پر مسترد کر دی ہے اور ہدایت جاری کی ہے کہ ادویات کے نرخوں میں کابینہ کی منظوری کے بغیر کسی قسم کا اضافہ نہ کیا جائے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پٹرولیم نرخ بڑھانے پر مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف اپنے برادر خورد وزیراعظم پاکستان میاں شہبازشریف سے سخت ناراض ہوئے اور اجلاس چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئے۔ وہ اجلاس میں بذریعہ ویڈیو لنک شریک تھے اور عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ ڈالنے کے مخالف تھے۔ اسکے باوجود حکومت نے پٹرولیم نرخ بڑھا دیئے۔ حکومت کے اس فیصلے پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز نے بھی اپنے ٹویٹر پیغام میں باور کرایا کہ وہ اس فیصلہ کی تائید نہیں کرسکتیں اور میاں نوازشریف نے بھی پٹرولیم نرخ بڑھانے کی سخت مخالفت کی ہے۔ انکے بقول مجبوری کوئی بھی ہے تو بھی نوازشریف اس فیصلے کے حامی نہیں اور اس فیصلے پر میں بھی عوام کے ساتھ کھڑی ہوں۔
اسی طرح حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کے قائد اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری نے بھی پٹرولیم نرخوں میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا اور گزشتہ روز اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ پیپلزپارٹی حکومت کا حصہ ہے، اس طرح کے فیصلوں پر مشاورت ضرور ہونی چاہیے۔ انکے بقول ہم اس حکومت میں عوام کو ریلیف دینے آئے ہیں اور یہی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انکی طرح دوسرے حکومتی اتحادیوں نے بھی پٹرولیم نرخوں میں اضافے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ اس سلسلہ میں آفتاب شیرپائو کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود پٹرولیم مصنوعات مہنگی کی گئیں۔ عوام حکومتی فیصلوں سے مایوس ہو گئے ہیں۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کی جانب سے تو پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لینے کا بھی تقاضا کیا گیا جبکہ پیپلزپارٹی کی سینیٹر کرشنا کماری نے پٹرولیم نرخوں میں اضافہ کے فیصلہ کو سمجھ سے باہر قرار دیا اور توقع ظاہر کی کہ وزیراعظم اس فیصلے پر نظرثانی کرینگے تاہم وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ پر ابھی تک کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا جو اس امر کا عکاس ہے کہ یہ فیصلہ وزیراعظم کی منشاء کے مطابق ہی کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی گزشتہ شب ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں بتایا کہ پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ پر وزیراعظم کے دستخط موجود ہیں۔
پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے حکومتی فیصلہ پر اپوزیشن‘ عوام اور خود حکومتی حلقوں کی جانب سے فوری طور پر اس لئے سخت ردعمل سامنے آیا کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کے نرخوں میں 35, 30 روپے کم ہونے کے باعث کسی کو پٹرولیم نرخوں میں اضافے کی توقع ہی نہیں تھی جبکہ خود حکومتی حلقوں کی جانب سے باقاعدہ اعلانات کئے جا رہے تھے کہ پٹرولیم نرخوں میں کمی کی صورت میں حکومت عوام کو بڑا ریلیف دینے جارہی ہے۔ اسی طرح آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے حکومت کو پٹرولیم نرخوں میں چھ سے سات روپے فی لٹر کمی کی سمری بھجوائی گئی۔ اسکے باوجود حکومت کی جانب سے پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا اچانک ہتھوڑا چلایا گیا تو عوام کے علاوہ حکومتی حلقے بھی اس پر ششدر رہ گئے۔ اب حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین بالخصوص میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کی جانب سے جس انداز میں پٹرولیم نرخوں میں اضافے کے فیصلہ پر حکومت کے ساتھ ناراضگی کا اظہار کیا جارہا ہے‘ اس سے تو بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حکومتی اتحادیوں کی رضامندی اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر خود ہی نرخ بڑھانے کا فیصلہ کرکے اس کا اعلان بھی کر دیا۔ فی الحقیقت یہ تاثر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ اور اب پٹرولیم نرخوں میں اضافہ سے عوام میں پیدا ہونیوالے سخت ردعمل اور اضطراب کو ٹالنے کیلئے وفاقی کابینہ نے 35 مختلف ادویات کے نرخوں میں اضافہ کی سمری متفقہ طور پر مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا کوئی عام فہم آدمی بھی تصور کر سکتا ہے کہ وزیر خزانہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں کے قائدین تو کجا‘ اپنی پارٹی کے قائدین کو بھی اعتماد میں لئے بغیر خودسری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا عاجلانہ فیصلہ کرلیا ہوگا جبکہ اس فیصلے کیخلاف سخت عوامی ردعمل بعیداز قیاس نہیں تھا۔ عوام کے ذہنوں سے یہ بات یقیناً ابھی تک محو نہیں ہوئی ہوگی کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لانے والی اپوزیشن جماعتوں بشمول اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی قیادتوں نے اس اتفاق رائے کے ساتھ حکومت سنبھالنے کا چیلنج قبول کیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں گھمبیر ہونے والے عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل سے انہیں ریلیف دیا جائیگا اور اس سلسلہ میں تمام فیصلے متفقہ طور پر کئے جائینگے۔ جب حکومت سنبھالنے کے بعد حکومتی اتحادیوں کی قیادتوں کو احساس ہوا کہ عمران خان آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے پاکستان کیلئے بے پناہ اقتصادی مشکلات پیدا کر گئے ہیں جن سے نکلنے کیلئے حکومت کو عوام کو ریلیف دینے کے بجائے ان پر مزید مہنگائی مسلط کرنا ہوگی تو اس پر بعض حکومتی اتحادیوں اور خود حکمران مسلم لیگ (ن) کی قیادت کی جانب سے حکومت سنبھالنے کی غلطی پر پچھتاوے کا اظہار سامنے آنے لگا اور میاں نوازشریف نے تو وزیراعظم شہبازشریف سمیت اپنی پارٹی کے حکومتی اکابرین کو لندن بلا کر انہیں حکومت چھوڑنے کا الٹی میٹم دے دیا۔ تاہم جب پیپلزپارٹی کی قیادت کے اصرار پر اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری کرنے کا فیصلہ ہوا تو حکومتی اتحادیوں نے اسکے ساتھ ہی یہ بھی متفقہ طور پر طے کرلیا کہ تمام امور حکومت باہمی مشاورت سے چلائے جائینگے اور ممکنہ عوامی ردعمل کا سامنا بھی مشترکہ طور پر کیا جائیگا۔ اسی بنیاد پر ایک ماہ کے اندر اندر تین بار کئے گئے پٹرولیم نرخوں میں بے مہابہ اضافے کو تمام حکومتی اتحادیوں نے قبول کیا اور اس پر عوامی ردعمل بھی مشترکہ طور پر قبول کرنے کا عندیہ دیا۔ اس صورتحال میں بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے محض وزیراعظم کو اعتماد میں لے کر پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کرلیا ہوگا چنانچہ یہ کہنا ہرگز بے جا نہیں کہ کسی بیرونی مجبوری کے تابع تمام حکومتی اتحادی قیادتوں نے باہم متفق ہو کر پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے جسکے بارے میں اب خود حکومتی حلقوں کی جانب سے میڈیا پر تسلیم کیا جارہا ہے کہ آئی ایم ایف کے قرض کی قسط کے اجراء کی خاطر حکومت کو پٹرولیم نرخوں میں اضافے کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے پٹرولیم مصنوعات پر دی جانیوالی سبسڈی ختم کرنے کی کڑی شرط عائد کرر کھی ہے۔
اس تناظر میں وزیر خزانہ کا یہ کہنا بھی درست نظر آتا ہے کہ حکومت کو ابھی مزید سخت فیصلے کرنے ہیں جن کے باعث مہنگائی کے مزید طوفان اٹھنے اور عوام کے عملاً چیخیں مارنے کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ اگر حکومتی اتحادی جماعتوں نے ان کٹھن حالات کا ادراک کرتے ہوئے حکومت سنبھالنے کا چیلنج قبول کیا ہے تو اب پٹرولیم نرخوں میں اضافے کی ذمہ داری قبول نہ کرنا چہ معنی دارد۔ اگر مریم نواز کے بقول وہ اس فیصلہ کیخلاف عوام کے ساتھ کھڑی ہیں اور یہی میاں نوازشریف کا بھی موقف ہے تو انہیں فوری طور پر حکومت سے الگ ہو کر مہنگائی کیخلاف جدوجہد کیلئے عملاً عوام کے پاس آجانا چاہیے بصورت دیگر عوام ایسے اعلانات کو سیاسی شعبدہ بازی سے ہی تعبیر کرینگے اور عوام میں انکی مقبولیت کا رہا سہا بھرم بھی ٹوٹ جائیگا۔
اس وقت حکومتی اتحادی قیادتیں عملاً دوراہے پر کھڑی ہیں وہ یا تو حکومت میں رہتے ہوئے عوام کو عملاً ریلیف فراہم کریں یا اقتدار چھوڑ کر نئے انتخابات کیلئے عوام کے پاس آجائیں۔ اس حوالے سے اصل آزمائش مسلم لیگ (ن) کی ہے جس کی قیادتوں کے مابین ہی اختلافات کا تاثر اجاگر ہو رہا ہے۔ میاں نوازشریف کی پارٹی حکومت میں ہے تو انہیں حکومتی فیصلوں کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ وہ بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کا حصہ تو نہیں ہو سکتے۔ اگر انہیں مفتاح اسماعیل کے فیصلہ سے اختلاف ہے تو وہ انہیں حکومت سے مستعفی کرائیں یا مسلم لیگ (ن) کو اقتدار سے نکال کر اپوزیشن کی صفوں میں آجائیں۔ اس سے ہی انکی اور انکی پارٹی کی ساکھ بچ سکتی ہے۔ اس حوالے سے دوسرے حکومتی اتحادیوں کو بھی کوئی ایک فیصلہ بہرصورت کرنا ہوگا اور ہر حکومتی اقدام کی ذمہ داری بھی مشترکہ طور پر قبول کرنا ہوگی۔ عوام کو حکومتی مجبوریوں سے نہیں‘ اپنے مسائل سے نجات سے سروکار ہے جس کا حکومتی اتحادی قیادتوں نے ان سے وعدہ بھی کیا تھا۔