سیاسی ڈائری
میاں غفار احمد
کوئی تباہی سی تباہی ہے کہ سارا کوہ سلیمان ہی شدید متاثر ہے اور راجن پور کی آخری سرحدی بستی گوٹھ مزاری سے لیکر تونسہ کے اوپری علاقوں تک لاکھوں افراد بے گھر اور اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ کوئی نظام حکومت نظر نہیں آ رہا، اکثر رابطہ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ گئیںیا ختم ہو گئی ہیں اور صورتحال یہ ہے کہ راجن پور کا علاقہ میں حاجی پور اس وقت 4 سے 6 فٹ پانی میں ڈوبا رہا ہے جبکہ حاجی پور، داجل، ہڑند، جام پور، لال گڑھ لنڈی سمیت ضلع راجن پور میں ان تمام علاقوں کے زمینی رابطے بھی کئی دن منقطع رہے ہیں۔ 2010 ئ میں آنے والے سیلاب نے دریائے سندھ کے زیریں علاقہ میں تباہی مچائی تھی مگر اس پہاڑی پانی جسے عرف عام میں رودکوہی کہاجاتا ہے، نے دریائے سندھ کے اپر بنک کا صفایا کر کے رکھ دیا ہے سیلابی پانی سے ہلاکتوں کا کوئی اندازہ ہی نہیں اور مال مویشی کے روزگار سے وابستہ ان ٹرائبل ایریا کے لوگو ں کو سب سے زیادہ نقصان ہی مال مویشیوں کا ہوا ہے۔
تحصیل تونسہ میں بھی درجنوں بستیاں مٹ گئی ہیں اور بڑی بڑی بستیاں جن میں سوکڑ، نتکانی، بغلانی، مدرانی، منگروٹھہ، سوٹا، لاکھانی، بیٹ اشرف، مٹھے والی، حسن آباد اور لڑا سمیت درجنوں بستیاں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ راجن پور انتظامیہ کے پاس حیران کن طور پر 2010 ئ کے سیلاب میں امدادی سامان کی مد میں ملنے والے ٹینٹ محفوظ اور موجود پڑے تھے جبکہ ڈیرہ غازیخان کی تحصیل تونسہ میں امدادی سامان کی فراہمی کی صورتحال بہت ہی دگرگوں ہے۔ رشوت نے ہر چیز کو تباہ کر کے رکھ دیا اور رودکوہیوں کے صدیوں سے بنے راستے کیونکر بند اور تبدیل کئے گئے۔ اس گھناونے کھیل میں کرشنگ کیلئے نصب کئے گئے غیرقانونی کرشنگ پلانٹس کا کیا کردار ہے۔ انتظامیہ اور سرداروں نے کیا ظلم کیا۔ اپنے مفادات دیکھے عوام کے مسائل کا احاطہ نہیں کیا۔ اس پر بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔
کئی سال قبل ایک غیرملکی سروے ٹیم نے ضلع راجن پور میں رودکوہی کے ایک ماہ کے پانی کی پیمائش کر کے ایک رپورٹ بنائی ۔ اگر حکومت یہاں بند اور منی ڈیم بنائے لے تو دریائے سندھ میں ضائع ہونے والا ضلع راجن پور کے لئے اگلے سات سال تک زراعت اور جنگلات کی ضروریات پوری کر سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی تحقیقات کروا لیں تو صرف وڈور اور سوری لْنڈ واٹرچینل پراجیکٹ میں پہنچنے والا اربوں روپے کا نقصان واضح ہو جائے گا۔ سابق وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے دور میں اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع ہوئے اور مکمل ہوئے ان میں سے بھی کئی سیلابی ریلوں کی نذر ہو کر سارے ثبوت مٹا گئے۔ اس وقت سارے کوہ سلیمان کا پہاڑی سلسلہ آفت زدہ ہے مگر حکومت کے پاس نئے سرے سے فنڈز ہی موجود نہیں۔
سیاسی حوالے سے خبر یہ ہے کہ جہانگیر ترین جو آج تک اپنا انتخابی حلقہ ہی نہ بنا سکے، علیم خان اور سابق وزیراعظم کے چہیتوں میں سے ایک مخدوم خسرو بختیار تحریک انصاف پلس بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے ناراض لوگوں سے رابطہ بھی کر رہے ہیں مگر ابھی تک کامیابی دور دور تک نظر نہیں آرہی جہاں تک جنوبی پنجاب کی سیاسی صورتحال کا تعلق ہے ابھی تک پی ٹی آئی کی ٹکٹ ہی ہاٹ کیک ہے ورنہ بعض لوگ آزاد الیکشن لڑنے کو ترجیح دیں گے۔ آنے والے کل کی صورتحال کیا ہوتی ہے اس بارے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم جن منصوبہ سازوں نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنایا تھا وہ اس قسم کا کوئی اور محاذ تشکیل دینے کے لئے کوئی اور نعرہ ڈھونڈ رہے ہیں ۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا لٰہذا فی الحال کوئی نیا محاذ کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتا ۔ عام لوگوں میں آزادی اظہار کی جو عادت جگہ پا چکی ہے وہ کبھی واپس نہیں ہو گی۔
جب بھی بلدیاتی ادارے ٹوٹ کر بیوروکریسی کے ہاتھوں میں جاتے ہیں، یہ ادارے تباہ و برباد کر دئیے جاتے ہیں کہ ہماری نوکر شاہی کو اداروں کی بربادی سے کوئی فرق نہیں پڑتاہے۔ اس وقت پنجاب میں صورتحال یوں ہے کہ بلدیاتی اداروں کے پاس پنشن اور تنخواہیں دینے کے لئے بھی فنڈز نہیں رہے۔ پنجاب میں اس وقت قصور، سرگودھا، اٹک، جہلم، مظفرگڑھ، رحیم یار خان، جھنگ، ساہیوال، اوکاڑہ چنیوٹ اور حافظ آباد سمیت متعدد بلدیاتی اداروں کی تمام تر مشینری ناکارہ ہو چکی ہے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ سیوریج سسٹم کے لئے لاکھوں گٹروں کے ڈھکن لگانے کی ذمہ داری بھی بلدیاتی اداروں کو دے دی گئی ہے جبکہ ان اداروں کے پاس سٹریٹ لائٹس کے لئے بل ادا کرنے کے فنڈز بھی نہیں۔ سٹریٹ لائٹس مجموعی طور پر 50 فیصد خراب ہونے کے باوجود ہر بلدیاتی اداروں کو کم از کم 40 لاکھ سے 50 لاکھ سٹریٹ لائٹس کا ماہانہ بل آ رہا ہے اور چوری شدہ بجلی بھی سٹریٹ لائٹس کے کھاتے میں ڈالی جاتی ہے توجہ طلب امر یہ ہے کہ ورلڈ بنک کا اربوں روپیہ جو حکومت پنجاب کے پاس ماضی میں موجود تھا، وہ موجود ہے یا خرچ ہو گیا اور خرچ ہوا تو کہاں؟ کوئی بتانے کو تیار نہیں جب تک ٹول ٹیکس بحال نہیں ہو گا بلدیاتی ادارے خود کفیل نہیں ہو سکیں گے اس وقت ایک کلومیٹر کارپٹ روڈ تقریباً ایک کروڑ روپے میں بنتی ہیں اور متعدد بلدیاتی ادارے ایسے ہیں جن کے پاس سینکڑوں کلومیٹر سڑکیں ہیں مگر بجٹ 30 کلومیٹر کے برابر بھی نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز وزیر بلدیات کے طور پر کیا تھا اور وہ پنجاب میں بلدیاتی امور کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، انہیں فوری طور پر بلدیاتی اداروں کی طرف توجہ دینا ہو گی کیونکہ حالیہ بارشوں میں پنجاب بھر کے بلدیاتی ادارے مکمل طور پر ناکام اور فلاپ ہو چکے ہیں مگر ایڈمنسٹریٹر حضرات کو اس کی کوئی پرواہ نہیں
آفت زدہ کوہ سلیمان کیلئے نئے سرے سے فنڈز ھی موجود نہیں
Aug 18, 2022