منیر نیازی پاکستان کی شاعری میں بہت بڑا نام ہیں، منفرد لہجے میں بہت سیدھی بات کرتے تھے۔ ان کی شاعری دلوں پر اثر کرتی ہے۔ آج بھی انہیں پڑھیں تو گمان ہوتا ہے کہ شاید ابھی کل ہی منیر نیازی نے یہ شعر لکھا ہے۔ وہ معتبر ادبی شخصیت ہیں لیکن آج مجھے وہ سیاسی حوالے سے بہت یاد آئے گوکہ اس شاعری کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن پاکستان تحریکِ انصاف کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی منیر نیازی مرحوم کے ایک ایک لفظ پر پورا اترتی دکھائی دیتی ہے۔ بقول منیر نیازی
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو
اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو
بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو
کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں
کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو
حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان اشعار کا موجودہ سیاسی حالات سے کیا تعلق ہے۔ تعلق تو شاید کبھی نہ بنتا لیکن وہ پی ٹی آئی ہی کیا جو ہر کام میں اپنا حصہ نہ ڈالے۔قارئین کرام سینیٹر فیصل جاوید خان نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے چیف آف سٹاف کے بیان کو بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بیان قابل قبول نہیں ہے۔ شہباز گل نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ ان کے خلاف ضرور قانونی کارروائی کی جائے۔ یاد رہے کہ تردید، وضاحتوں اور اعتراف کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک ایک کر کے ساتھ کھڑے ہونے والے سب یہ کہیں گے کہ شہباز گل نے بہت بڑی غلطی کی ہے، ان کے بیان کی مذمت کرتا ہوں۔ سب یہی الفاظ دہرائیں گے۔ چند دن پہلے تک یہ سب ساتھ کھڑے تھے کچھ تو چٹان کی طرح ساتھ کھڑے ہونے کے دعوے کرتے رہتے تھے ان کی چٹانوں کی خبر کسی بھی وقت سامنے آ سکتی ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری اور اس کے بعد تو پاکستان تحریکِ انصاف نے اس کیس کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اب ساتھ کھڑا ہونے والوں کو شدت سے احساس دلا رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ریڈ لائن ضرور کراس ہوئی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ہمیشہ دیر کرتے ہیں، انہیں کسی کو کوئی بات بتانی ہو، انہوں نے کسی سے صلح کرنی ہو، انہیں کسی کو واپس بلانا ہو، انہیں کسی کو حقیقت بتانی ہو، انہیں کوئی فیصلہ کرنا ہو، انہیں کسی سے بات چیت کرنی ہو، انہوں نے غلطی تسلیم کرنی ہو یہ ہمیشہ دیر کرتے ہیں۔ بھلے حکومت میں ہوتے ہوئے وہ دیر آئی ایم ایف کے پاس جانے میں ہو، بھلے وہ دیر امپورٹ ایکسپورٹ کے فیصلوں کے حوالے سے ہو، بھلے وہ دیر اتحادیوں سے بات چیت کے حوالے سے ہو، بھلے وہ دیر اپوزیشن سے بات چیت کرنے کے حوالے سے ہو، بھلے وہ دیر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بدلنے کے حوالے سے ہو یا پھر یہ دیر شہباز گل کے متنازع بیان کے حوالے سے ہو۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ہوئی کام وقت پر نہیں کیا۔ شہباز گل گرفتار ہوئے تو کہا گیا کہ انہیں اغوائ کیا گیا ہے پھر ان پر ہونے والا تشدد کو بیان کی طرح متنازع بنایا گیا اور جب پانی سر سے گذر گیا تو سب نے ایک ایک کر کے بیان کی مذمت شروع کر دی ہے۔ مذمت کرنے والوں کو شاید اب سمجھ آ رہی ہے کہ ہوا کیا ہے۔ اگر کوئی اب بھی نہیں سمجھ رہا تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ غلطی کرنا پھر ڈھٹائی سے اس پر قائم رہنا یہ پاکستان تحریکِ انصاف کا وطیرہ ہے اس کیس میں بھی وہ یہی کچھ کر رہے ہیں۔ اب شہباز گل کے بیانات کی دلیل میں مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماو¿ں کے بیانات کا حوالہ دے رہے ہیں یہ بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی والے ایک مرتبہ پھر حقائق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ اگر میاں نواز شریف نے کہیں کوئی غلطی کی ہے تو انہوں نے بہت سخت سزا بھگتی ہے۔ وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کوئی کم سزا ہے۔ کیا میاں نواز شریف قومی خدمات کے صلے میں جلاوطن ہوئے تھے۔ کیا آصف زرداری نے جیلیں نہیں کاٹیں، اس لیے یہ کہنا کہ انہیں کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ بہانہ اس وقت کام نہیں آ سکتا۔ البتہ معاملہ بگڑ ضرور سکتا ہے۔ کیا عجیب لوگ ہیں اگر نون لیگ نے کوئی غلطی کی ہے تو اس غلطی کی تصدیق کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کا غلطی کرنا ضروری ہے تاکہ لوگوں کو بتایا جا سکے کہ غلط کون ہے۔ چند سال پہلے کسی اور کا سانس اکھڑ رہا تھا اور پلیٹ لیٹس کم ہو رہے اب کسی اور کا سانس اکھڑے گا پلیٹ لیٹس کم ہوں گے۔ ان حالات میں عقل والوں اور غور و فکر کرنے والوں کے کیے نشانیاں ہیں لیکن یہاں غور و فکر کا وقت کسی کے پاس نہیں البتہ سیاسی مخالفین کی ہر بات کو جواب دینے کے لیے گھنٹوں بات کی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو ایک مرتبہ پھر تاخیر سے فیصلہ کرنے کی وجہ سے مار پڑ رہی ہے کاش کہ انہیں کچھ سمجھ آئے جس کے امکانات ذرا کم ہیں۔ شہباز گل کو بچانے کے لیے جس حکمت عملی پر کام کیا جا رہا ہے وہ بہت مو¿ثر نہیں ہیں۔ گذشتہ رات جو کچھ ہوا ہے اس سے بھی اچھا تاثر نہیں گیا۔ جتنے بھی لوگ ساتھ کھڑے تھے وہ شاید اس لیے ہی ساتھ تھے کہ شہباز گل کو سٹریچر پر لٹائے بغیر نہیں بیٹھیں گے۔ بہرحال اس کیس میں اگر تفتیش کا دائرہ کار وسیع ہوتا ہے تو پھر مسائل میں اضافہ معمولی بات ہے۔ سیاست دان ایک دوسرے پر غداری کے الزامات لگانے اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے کے بجائے قوم کو سچ بتائیں۔ نفرت نہ پھیلائیں۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے جتنی تاخیر ہو گی اتنا ہی زیادہ نقصان بھی ہو گا۔
اللہ تعالیٰ منیر نیازی مرحوم کے درجات بلند اور پاکستان تحریکِ انصاف والوں کو عقل عطاءفرمائے۔ آمین