قیام پاکستان کی 75ویں سالگرہ قوم نے روایت سے ہٹ کر جوش وجذبہ اور عقیدت واحتشام سے منائی . گلگت ، بلتستان، آزادکشمیر اور اسلام آباد سمیت پورے ملک کی فضاء سبزہلالی پرچموں سے مرقع رہی۔بڑوں اور بچوں میں پاکستان سے یکساں محبت اور عشق مثالی تھا۔ اللہ پاک میرے وطن پر خیر، برکت ،سعادت اورسیادت کا سایہ یوں ہی قائم و دائم رکھے آمین۔ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کو سلیبریٹ کرتے ہوئے نوجوان نسل کو خرافات کا شکار بھی دیکھا گیا۔باجے بجانا،ہلڑبازی اور آتش بازی کہاں ہماری ثقافت اور کہاں ہماری اقدار ہے ؟’’بڑوں‘‘ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ نئی نسل اپنے بزرگوں کی صحیح تقلید کر کے پاکستان کی خدمت کا حق ادا کر سکیں ۔ مقام شکر ہے کہ مکی مسجد اور خانقاء حسینیہ خیابانِ سر سید میں گولڈن جوبلی کی خوشی میں اجتماعی سجدہ شکر بجا لایا گیا۔ یوم آزادی سے کچھ روز قبل مکی مسجد کے مینار پر دو سوفٹ اونچائی پر قومی پرچم لہرایا گیا۔14اگست کی دوپہر بعد نماز ظہر خانقاء حسینیہ میں پرچم کشائی کی سادہ مگر پروقار تقریب ہوئی۔ سجادہ نشین علامہ پیر ثناء اللہ حسینی نے احباب کیساتھ مل کر سبز ہلالی پرچم لہرایا ۔ ایونٹ میں رفیق حجاج پاکستان کے سربراہ بابو عمران قریشی، سرو سہارن پوری ٹرسٹ کے چیئرمین حکیم سید محمد محموداحمد سہارن پوری اور سیرت کمیٹی کے عبدالحمید سمیت ممتاز سما جی، عوامی اور دینی حلقوں کی شخصیات شریک ہوئیں۔ پیر ثناء صاحب نے قومی سلامتی اور خوشحالی کیلئے خصوصی دعا کرائی… ہمارا وطن جب سے معرض وجود میں آیا ہے ،اس وقت سے آج تک ہمارا ازلی دشمن بھارت کلمے کی بنیاد پر بننے والی ریاست پاکستان کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اوراسے دل سے بھی تسلیم نہیں کیا۔ بھارت ہماراامن کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔دنیا شاہد ہے کہ پاکستان نے امن وامان کی فضا پیداکرنے کے لیے اس خطے میں بے شمارقیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضاء میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں . پاکستان نے اپنا 75واں یوم آزادی پورے جوش و خروش اور ملّی جذبے کے ساتھ منایا 75 سالہ سفر کے دوران پاکستان نے بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا، مگر ہم اپنی محنت، قربانیوں اور قوم کے تعاون سے ان چیلنجز میں سرخرو ہوئے تحریک پاکستان کے کارکنان کی عملی فکری سیاسی نظریاتی جنگ اور قربانیوں کی بدولت پاکستان ہمیں ملا۔اس تحریک آزادی میں مرد عورتوں بچوں بوڑھوں اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا تھا۔بنا کسی فوج یا اسلحے کے عوام نے اخوت و اتحاد کے ساتھ آزادی کی جنگ لڑی اور آزاد وطن کیخواب کو حقیقت کا رنگ دیا۔اس میں ہر طبقے ہر عمر کے لوگ شامل تھے جنہوں نے خون پسینہ ایک کرکے انگریز حکومت اور ہندو تسلط کے خلاف پرامن جدوجہد کی اور 14 اگست 1947 کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔سرسید احمد خان تحریک آزادی کے ان اکابرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے جہاد بالقلم کی بنیاد رکھی ۔انگلش لٹریچر کا اردو میں ترجمہ کیا اور علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی ۔دو قومی نظریے کے حوالے سے انہوں نے کہا ہندو اور مسلمان ایک قوم کے طور پر ترقی نہیں کرسکتے۔علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی ۔جس کے تحت مسلمانوں میں تعلیم کو فروغ دیا گیا۔پھر مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی ہوں مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی جہدوجہد کا آغاز ہوا۔ سر آغا خان نے مسلمانوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم کے لئے گراں قدر خدمات دیں ۔لارڈ منٹو سے مذاکرات کئے اور آزادی کا مطالبہ کیا ۔آل انڈیا مسلم لیگ کے پہلے صدر منتخب ہوئے ۔مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو خطیر چندے دیے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی سیاسی بصیرت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہوئے وہ سیاست سے الگ ہوگئے اور فلاحی کام جاری رکھے۔ہندوستان میں دو بڑی قومیں آباد تھیں مسلمان اور ہندو اس لئے انکے لئے الگ الگ ملک ضروری تھے تاکہ یہ اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کے تسلط کے خلاف اپنی سیاسی آواز بلند کرنا شروع کی اور ان سب کو ایک چھتری تلے قائد اعظم محمد علی جناح نے جمع کیا قائد اعظم محمد علی جناح بانی پاکستان نے اپنی پوری زندگی برصغیر کے مسلمانوں کے لئے وقف کردی۔1928 میں چودہ نکات پیش کئے۔پہلی گول میز کانفرنس میں مسلمانوں کی موثر نمائندگی کی۔1934 سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے بھرپور مہم کا آغاز کیا اور مسلم لیگ مسلمانوں کی سب سے بڑی جماعت بن گئی۔18 جولائی 1947 کو آزادی ہند کا قانون نافذ ہوا۔14 اگست کی درمیانی شب ہندوستان تقسیم ہوگیا اور قائد اعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل منتخب ہوئے ۔ تحریک پاکستان کے کارکنان اور اکابرین کی وجہ سے ہمیں آزادی جیسی نعمت ملی ہمیں اس کی قدر کرنا چاہیے۔