ہبہ کیلئے اولاد میں مساوات قائم کرو

Aug 18, 2023

مولانا مفتی محمد نوید خان

 مولانا مفتی محمد نوید خان
ہبہ سے متعلق  بلا شبہ کچھ مسائل توجہ کے طلب گار ہیں۔ اگر باپ نے اپنی نابالغ بچی کے لئے سونا خریدا اور ضرورت پڑنے پر بیچ کر خرچ کر لیا ہو تو دیکھا جائے گا کہ اگر بچی کو مالک بنانے کی نیت سے دے کر اپنی ملکیت سے نکال دیا ہو تو پھر دوبارہ خریدنا باپ کے لئے ضروری ہوگا اور اگر مالک نہ بنایا ہو یا اس کے لئے نیت کرکے نہ خریدا ہو تو پھر دوبارہ خریدنا بچی کے لئے ضروری نہیں ہے۔(شامی:689/5)۔ زندگی میں اولاد کو کچھ دینا وراثت نہیں بلکہ والدین کی طرف سے عطیہ و ہبہ ہوتا ہے اپنی اولاد کو عطیہ دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی میں تفریق نہ کی جائے اور سب کو برابر دیا جائے۔ اگر میراث کے اصول کو سامنے رکھ کر بیٹی کو بیٹوں کے حصہ سے آدھا دینا چاہیں تو اس کی بھی گنجائش ہے لیکن اس سے کم کرنا بلاعذر معتبر اور جائز نہیں، نیز کسی کو محروم کرنے یا نقصان پہنچانے کی غرض سے جائیداد سے محروم کرنا جائز نہیں۔(بدائع:316/31، البحرالرائق:110/20، تکملہ فتح الملہم:71/2)
 عام حالات میں اولاد کے درمیان ہبہ میں برابری سے کام لینا چاہئے، لڑکا یا لڑکی سب کو برابر حصہ دینا چاہئے، البتہ کسی معقول وجہ مثلاً اولاد میں سے کسی کا زیادہ تنگدست ہونا، زیادہ عیال دار ہونا، بعض کا خدمت گار ہونا اور بعض کا نافرمان ہونا وغیرہ کی بنا پر کمی بیشی کی جا سکتی ہے۔ (البحرالرائق:110/20)۔ واضح رہے اولاد والدین کی زندگی میں ان کے مال میں حق کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ کوئی اپنی زندگی میں اس شرط کے ساتھ بیٹے یا بیٹی کو جائیداد میں حصہ دینا کہ بعد میں وراثت میں اس کو حصہ نہیں دیا جائے گا بلکہ دیگر ورثاء میں جائیداد تقسیم کی جائے گی، تو ایسا کر کے میراث میں حق ختم نہ ہوگا۔(المحیط البرہانی:668/6، تکملہ شامی:116/2)۔ زندگی میں والد اگر جائیداد کی تقسیم کرنا چاہے تو یہ ہبہ ہے، اس لئے اس میں یہ ضروری ہے کہ والد اولاد میں سے جس کو جو مال دے وہ اس کے نام کرکے باقاعدہ اسکے قبضے میں بھی دے، کیونکہ اگر صرف نام کروایا اور قبضہ نہیں دیا تو ایسا ہبہ پورا نہیں ہوگا اور والد کے انتقال کے بعد ایسا مال بھی میراث کا حصہ بن کر سب ورثہ میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔(الدر:690/5)

مزیدخبریں