سید مشرف کاظمی
syedmusharafkazmi786@gmail.com>
حضرت سیدعبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکارؒ کا شمار ان بزرگوں میں ہوتا ہے جن کے فیض نظر سے نہ صرف ہزاروں لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے بلکہ لاکھوں گمراہوں کو رشد و ہدایت کی بدولت بھی نصیب ہوئی۔ وفاقی دارالحکومت کے قلب اور مارگلہ کے دامن میں نور پورشاہاں کی بستی میں آپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے جہاں ہر سال مئی کے آخری ہفتے میں آپ کا عرس مبارک عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ چند سال پہلے سکیورٹی وجوہات کی بناء پر حکومت نے عرس کی تقریبات بند کردی تھیں اب 28مئی کو صرف مقامی عقیدت مند ہی جمع ہو کر مختصر سی محفل سجا لیتے ہیں بلکہ مختلف ایام میں مختلف شہروں کے عقیدت مند الگ الگ عرس مناتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ یہ ناروا پابندی ختم کرے اور باقاعدہ عرس دوبارہ شروع کرے ۔
حضرت سید شاہ عبدالطیف المشہدی کاظمی المعروف بری امام سرکار برصغیر پاک و ہند کے ان اولیاء کرام اور صوفیاء کرام میں شامل ہیں جنہوں نے مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد میں اس ملک کے مختلف اطراف میں نور اسلام پھیلانے کیلئے انتھک جد و جہد کی یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام کی تبلیغ میں جہاں اس کے اعلی اصولوں اور لاثانی ضابطہ حیات کا حصہ ہے وہاں بزرگان دین کی جدو جہد اور روحانی کمالات کا بھی بڑا کردار ہے۔ سید عبدالطیف بری امام کاظمی 1617ء اور 1026ہجری میں ضلع چکوال کے علاقے چولی کرسال میں پیدا ہوئے آپ کے والد گرامی کا اسم مبارک سید سخی محمود بادشاہ کاظمی اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ غلام فاطمہ کاظمی تھا آپ کے والد گرامی بھی ایک ولی تھے بری امام سرکار نے ابتدائی تعلیم اپنے والد گرامی سید محمود بادشاہ سے حاصل کی۔ آپ نے فقہ و حدیث اور دیگر علوم اسلامی کی تعلیم نجف اشرف عراق میں حاصل کی۔ سید محمود بادشاہ جو ہ نجف اشرف سے فارغ التحصیل تھے نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیںچھوڑ ی تھی۔ حضرت سید شاہ عبدالطیف المشہدی کاظمی نے مقدس اسلامی شہروں نجف اشرف کربلا سامرہ مشہد مقدس میں مختلف علماء سے دینی علوم کے علاوہ روحانی فیض بھی حاصل کیا۔
جب ایران و عراق کے بارہ سال کے طویل سفر کے بعد آ پ سید کسراں میں واپس آئے تو آپ کی کشف و کرامات کا تذکرہ ہر طرف ہونے لگا جس کی وجہ سے آپ کی شہرت ہر سو پھیل گئی لوگ دور دراز علاقوں سے بری سرکار کی خدمت اقدس میں حاضری یتے اور آپ کی تعلیم و تبلیغ وعظ و نصیحت اور پند و نصائح سے فیض یاب ہوتے کچھ عرصہ یہاں گزارنے کے بعد بری سرکار نے اس وقت کے ضلع راولپنڈی کے شمالی علاقے کا رخ کیا اور باغ کلاں ( موجودہ آبپارہ مارکیٹ اسلام آباد ) میں اقامت پذیر ہوئے۔ باغ کلاں کے باشندوں نے عزت و احترام کے ساتھ آپ کا خیر مقدم کیا اور کچھ اراضی بطور نذرانہ عقیدت پیش کی۔ بری امام کاظمی ؒنے کچھ عرصہ یہاں قیا م کیا اور تبلیغ دین میں مصروف رہے یہاں بسنے والے سب لوگ آپ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے یہاں پر آپ سے کئی کرامات ظاہر ہوئیں ۔
آپ سادات کے ایک مایہ ناز گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کا شجرہ نسب تاجدار امامت حضرت علی سے ہوتے ہوئے امامت کے ساتویں تاجدار امیر بغداد حضرت امام موسی کاظم ے جا ملتا ہے۔ حضرت امام موسی کاظم علی کی اولاد ہونے کے ناطے سے آپ کو کاظمی سید کہا جاتا ہے۔ خطہ پوٹھوہار کی بزرگ ہستی حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار ؒ نے اپنے جد امجد سرور کائنات حضرت محمد ؐ کے اتباع کو زندہ کردیا اور اسلام کی تعلیمات کے فروغ اور عوام الناس کیلئے اعلی کردار کی مثال پیش کی۔ قطب الاقطاب حضرت سید شاہ عبدالطیف کاظمی المعروف بری امام سرکار نے آج سے ساڑھے تین سو سال پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ نور پور پوٹھوہار ( اسلام آباد ) کا یہ خطہ ایک دن نہ صرف فرزندان توحید کا مرکز بلکہ عالی شان چمکتا دمکتا شہر بن جائے گا اور اس کا چرچا پوری دنیا میں ہوگا۔ حضرت بری امام سرکار کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور یہاں اسلام آباد کے نام سے ایک شہر بن گیا جو آج مملکت خداداد پاکستان کا دار الحکومت ہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سطح پر ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ترجمان کے عظیم شرف سے ہمکنار ہے۔ حضرت بری امام سرکار کو قطب الاقطاب اور ولی اللہ کا مقام حاصل ہے۔
ایک مرتبہ آپ کہیں سفر پر جا رہے تھے اور آپ کا مرید خاص مٹھا شاہ بھی اس سفر میں آپ کے ہمراہ تھے۔ ابھی آپ نے چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اچانک جنگل سے چند ڈاکو نکلے اور انہوں نے لوٹنے کی غرض سے آپ کا راستہ روک لیا مگر جونہی ان کی نظر آپ کے چہرہ مبارک پر پڑی اور انہوں نے آپ کی گفتگو سنی تو جرائم سے ہمیشہ کیلئے تائب ہوگئے اور اسی وقت آپ کے ہاتھ پر بیعت کرکے آپ کے مرید بن گئے۔ آپ نے یہیں اقامت اختیار کرکے تبلیغ کا کام شروع کردیا اور اس طرح چور پور میں اسلام کے نور کی روشنی پھیل گئی۔آپ نے جس مقام پر عبادت و چلہ کشی کیاسے لوئے دندی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ حضرت بری امام سرکار نے چلہ کشی کرکے پہاڑوں غاروں اور ویرانوں میں مصائب جھیل کر جنگل میں منگل کا سماں پیدا کیا اور وہ علاقہ جو کبھی چور پور کے نام سے موسوم تھا نور پور کے نام سے مشہور ہوا۔ حضرت بری امام سرکاری نے علوم ظاہری اور باطنی حاصل کرنے اور روحانی منازل طے کرنے کے بعد ضلع ہزارہ میں قیام کیا اور آپ نے سید محمد کی دختر نیک اختر بی بی دامن خاتون سے نکاح کیا آپ کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی مگر کچھ عرصہ بعد آپ کی زوجہ محترمہ بھی دنیا سے رخصت ہوگئیںہے۔ ۔ بری سے مراد ہے بر و بحر یعنی پہاڑوں بیانانوں دریا ں ندیوں چشموں اور ایسی تمام آب گاہوں کے متولی جہاں انہوں نے یاد الہی میں تند و تیز ہوا?ں اور موسمی حالات سے بے نیاز دن رات چلہ کشی کی اور وہ بھی صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کیلئے۔
حضرت بری امام سرکار کی عبادات و کرامات پاک و ہند میں مشہور ہیں۔ سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ آپ نے دو مغل شہزادوں کی بالخصوص تربیت کی اور دینی روحانی اصلاح کرکے ایک شہزادے کو راہ سلوک کی دنیا میں گم کردیا گیا اور اس کا نام آپ نے شاہ حسین رکھا۔ اگرچہ یہ شہزادہ مادی دنیا کا پرستار تھا لیکن ایک مرد کامل کی نگاہ اثر سے اس کے سوچنے کا انداز بدل دیا۔ اس کرامت سے متاثر ہو کر شہزادے کی اپنی باقی زندگی بری امام سرکار کے قرب میں گزاری اور دوسرا شہزادہ اورنگزیب عالمگیر کو تخت و تاج کا مالک اور دین کی تبلیغ کیلئے دنیاوی شہنشاہ بنا دیا۔ جس مقام پر آپ عبادت میں مصروف ہوتے تو ایک جن آ کر آپ کو پریشان کرنے لگا اور آپ کی عباد ت میں خلل ڈالنے لگا۔ جب وہ جن اپنی شرارتوں سے کسی صورت باز نہ آیا تو آپ نے اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے دعا کی تو وہ جن وہیں پتھر بن گیا یہ نشانی لوئے دندی کے مقام پر آج بھی موجود ہے اور ملک بھر سے ہزاروں لوگ حضرت امام کی یہ کرامت دیکھنے نور پور شاہاںجاتے ہیں اور اس مقام کی زیارت کرتے ہیں جہاں بیٹھ کر آپ عبادت کیا کرتے تھے۔ہمارے معاشرے میں خوش عقیدہ حکمرانوں کی بھی کمی نہیں میاں نواز شریف اور اسحاق ڈار خود بھی اولیا اللہ اور بزرگان دین سے عقیدت رکھنے والے ہیں ان کے ادوار میں دربار کمپلیکس کی تعمیر و بحالی پر خصوصی توجہ دی گئی۔اب ضروت اس امر کی ہے کہ سکیورٹی وجوہ کی بنا پر لگی پابندی ختم کر کے یہاں عقیدتمندوں کیلئے عرس پر داخلے کا اہتمام کیا جائے۔