ماہ صفر کے منحوس ہونے سے متعلق بے بنیاد سوچ

حافظ محمد ابراہیم نقشبندی
اسلامی تعلیمات ہمیں وہم پرستی اور نحوست جیسی سوچ رکھنے سے  باز رکھتی ہیں۔بعض لوگ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: چھوت چھات (بیماری کا دوسرے سے لگنے کا وہم)اور اُلو (کو منحوس سمجھنے)اور صفر (کے مہینہ کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (صحیح بخاری: 5707)
صفرکے مہینے اور بد فالی کے متعلق زمانہ جاہلیت میں طرح طرح کی باتیں مشہور تھیں: زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا صفر کے متعلق یہ گمان تھاکہ اس ماہ میں بکثرت مصیبتیں آفتیں نازل ہوتی ہیں اور یہ مہینہ نحوست پریشانیوں اور مصائب والاہے نیز اہل عرب صفر کا مہینہ آنے سے بدفالی بھی لیا کرتے تھے۔بعض اہل علم عرب کا یہ گمان تھا کہ صفر سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کے پیٹ میں ہوتا ہے اور بھوک کی حالت میں انسان کو ڈستا اور کاٹتا ہے چنانچہ بھوک کی حالت میں جو تکلیف ہوتی ہے وہ اسی کے ڈسنے سے ہوتی ہے۔
 بعض کے نزدیک صفر ان کیڑوں کو کہتے ہیں جو جگر اور پسلیوں کے سرے میں پیدا ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے انسان کا رنگ بالکل پیلا ہوجاتا ہے (جس کو طب کی زبان میں ’’یرقان‘‘ کہاجاتاہے) اور بسا اوقات یہ مرض انسانی موت کا سبب بن جاتاہے۔
اسلام نے ان تمام مذکورہ خیالات ونظریات کو باطل اور غلط قرار دیا ہے۔ بلکہ ان ارشادات مبارکہ سے صفر کے حوالے سے قیامت تک پیدا ہونے والے تمام غلط خیالات وتصورات کی نفی ہوگئی ہے کیونکہ یہ ارشادات قیامت تک کے لیے ہیں۔
آج کل بھی ماہ صفر کے متعلق عام لوگوں کے ذہن میں مختلف خیالات جمے ہوئے ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں:
شادی اور خوشی کی تقریبات نہ کرنا:
بعض لوگ ماہ صفر میں شادی بیاہ اور دیگر پر مسرت تقریبات منعقد کرنے اور اہم امور کا افتتاح کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور کہا کرتے ہیں کہ صفر میں کی ہوئی شادی  کامیاب نہ ہوگی ۔ چنانچہ صفر کا مہینہ گزرنے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر ربیع الاول کے مہینہ سے اپنی تقریبات شروع کر دیتے ہیں۔ 
مٹی کے برتن توڑنا:
بعض لوگ اس دن گھروں میں اگر مٹی کے برتن ہوں تو ان کو توڑ دیتے ہیں۔ اور اسی دن بعض لوگ چاندی کے چھلے اور تعویذات بنوا کر ماہ صفر کی نحوست، مصیبتوں اور بیماریوں سے بچنے کی غرض سے پہنا کرتے ہیں۔ یہ خالص وہم پرستی ہے جس کو ترک کرناواجب ہے۔ اس ماہ میں آسمانوں سے جنات اور بلاؤں کے نزول کا تصور بھی کیا جاتا ہے۔  
بعض علاقوں میں مشہور ہے کہ اس مہینہ میں لنگڑے،لولے اور اندھے جنات آسمان سے اترتے ہیں اور چلنے والوں کو کہتے ہیں کہ بسم اللہ کر کے قدم رکھو کہیں جنات کو تکلیف نہ ہو۔ بعض لوگ اس مہینہ میں صندوقوں، پیٹیوں اور درودیوار کو ڈنڈے مارتے ہیں تاکہ جنات بھاگ جائیں۔ یہ سب بھی بے بنیاد باتیں ہیںاسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
اس مہینے کی ایک بدعت یہ ہے کہ لوگ اس مہینہ میں کاروبار کا افتتاح اور آغاز نہیں کرتے، اس لیے کہ اگر کاروبار شروع کر دیا تو وہ کاروبار کبھی بھی کامیاب نہیں ہوگا، اگر ہوگیا تو اس کاروبار میں فائدہ نہیں ہوگا، بلکہ نقصان ہی نقصان ہوگا یہ عقیدہ بھی بالکل باطل ہے۔
 صفر کا آخری بدھ:
ماہ صفر کے آخری بدھ سے متعلق بھی بہت باطل نظریات و خیالات ہمارے معاشرے میں پائے جاتے ہیں، اور یہ آخری بدھ سیربدھ کے نام سے مشہور ہے۔ بعض مرد اور عورتیں اِس دن سیر وتفریح کے لیے جاتے ہیں۔عمدہ قسم کے کھانے پکانے کا اہتمام کرتے ہیں، اور وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو جناب رسول اللہؐاپنی بیماری سے صحت یاب ہوئے اور آپ غسل صحت فرما کر سیر وتفریح کے لیے تشریف لے گئے تھے،یہ تمام باتیں من گھڑت ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ توہم پرستی وہ آگ ہے، جس میں ہم اپنے دینی، ملّی اور قومی تشخص کو جلا رہے ہیں ورنہ یہی تو وہ مبارک مہینہ ہے جس میں مسلمانوں کو مشرکین سے ’’ہجرت مدینہ کی صورت میں‘‘ نجات ملی تھی۔ اسی ماہ صفر میں ’’حضرت زینبؓ بنت خزیمہ، صفیہؓ بنت حیّی مسلمانوں کی مائیں بن کر کاشانۂ نبوت میں تشریف لائیں اور ایک بڑی جماعت سرکردہ افراد نے ماہ صفر میں اسلام قبول کیا۔ یہ تمام واقعات حضرت فاطمہؓ کا نکاح اور خودحضور ؐ کا نکاح ہمیں تواہم پرستی، نحوست اور بدشگونی کی  تاریک سوچ سے نکال کر خیر و برکت، خوشی و مسرت، شادابی و کامیابی کے سدا بہار ماحول فراہم کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توہم پرستی سے بچا کر سنت نبوی ؐ پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین!

ای پیپر دی نیشن